وتر کی دعائے قنوت اور نیت کا طریقہ قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ صفحہ نمبر 333

سوال

وتروں میں دعائے قنوت رکوع کے بعد پڑھنی چاہیے یا رکوع سے پہلے، ہاتھ اٹھا کر یا ہاتھ باندھ کر یا کھلے چھوڑ کر؟ اور تین رکعت وتر کو دو سلام سے پڑھتے وقت نیت کس طرح ہو؟ صرف قرآن و حدیث کے عین مطابق جواب دیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(١) دعائے قنوت رکوع سے پہلے یا بعد میں؟

◄ وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے بھی آئی ہے اور رکوع کے بعد بھی آئی ہے۔
◄ یہ بات صحیح طور پر نسائی شریف وغیرہ کتب حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔
◄ لہٰذا دونوں صورتیں جائز ہیں۔
◄ البتہ میری تحقیق بخاری وغیرہ کی حدیث کی روشنی میں یہ ہے کہ:
✿ وتر میں اکثر طور پر قنوت رکوع سے پہلے پڑھنی چاہیے۔
✿ اور فرض نماز میں رکوع کے بعد۔
◄ لیکن چونکہ دونوں طریقے حدیث سے ثابت ہیں، اس لیے:
✿ اگر رکوع سے پہلے قنوت پڑھی جائے تو ہاتھ باندھ کر پڑھنی چاہیے۔
✿ اور اگر رکوع کے بعد پڑھی جائے تو ہاتھ چھوڑ کر۔

(٢) دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھانے کا مسئلہ

◄ خاص طور پر وتر کی دعائے قنوت میں نبی کریم ﷺ سے کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس میں یہ وضاحت ہو کہ آپ ﷺ ہاتھ اٹھاتے تھے یا نہیں اٹھاتے تھے۔
◄ البتہ فرض نماز میں دعائے قنوت پڑھنے کے وقت ہاتھ اٹھانے کی حدیث صحیح ہے جو امام احمد کے مسند وغیرہ میں موجود ہے۔
◄ اس بنا پر جو مجھ سے پوچھتا ہے کہ وتر کی دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھانے چاہئیں یا نہیں، میں یہ جواب دیتا ہوں کہ:
✿ جو عمل فرض نماز میں جائز ہے وہ نفل میں بھی جائز ہے۔
✿ چونکہ فرض نماز میں قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے،
✿ اور وتر نماز قرآن و حدیث کے مطابق فرض نہیں بلکہ نفل ہے،
✿ تو اس میں بھی ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔
◄ اس لیے اگر کوئی ہاتھ اٹھا لے تو یہ بھی جائز ہے۔
◄ لیکن اس عمل کو نبی ﷺ کی سنتِ ثابتہ یا ضروری امر نہ سمجھا جائے۔
◄ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے وتر میں ہاتھ اٹھانے کے آثار بھی ملتے ہیں۔
◄ اس لیے میں اس کو صرف جائز سمجھتا ہوں۔
◄ اور میں خود ہفتے میں ایک مرتبہ رکوع کے بعد قنوت پڑھتا ہوں اور اس وقت ہاتھ بھی اٹھا لیتا ہوں۔
والله أعلم

(٣) وتر کے سلام کا طریقہ

◄ صحیح احادیث میں زیادہ تر وتر دو سلام سے ادا کرنا ثابت ہے۔
◄ البتہ ایک سلام سے بھی پڑھنا حدیث میں آیا ہے۔
◄ لیکن اگر ایک سلام سے پڑھا جائے تو:
✿ دوسری رکعت میں تشہد کے لیے نہ بیٹھا جائے،
✿ بلکہ تیسری اور آخری رکعت میں تشہد پڑھ کر سلام پھیرا جائے۔
◄ جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔
◄ نیز حدیث (سنن دارقطنی وغیرہ) میں یہ بھی آیا ہے:
❝وتر کو مغرب کی نماز کے مشابہ نہ بناؤ۔❞
◄ لہٰذا اگر وتر ایک سلام سے پڑھے تو بیچ میں قعدہ نہ کرے، ورنہ وتر مغرب سے مشابہ ہو جائیں گے۔
◄ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قنوت پڑھنے سے وتر مغرب سے ممتاز ہو جائیں گے۔
◄ لیکن یہ بات صحیح نہیں، کیونکہ:
✿ قنوتِ نازلہ نبی کریم ﷺ سے صحیح احادیث میں پانچوں فرض نمازوں میں وارد ہے، جن میں مغرب بھی شامل ہے۔
✿ لہٰذا صرف قنوت پڑھنے سے وتر کی مغرب سے مشابہت ختم نہیں ہوگی۔
◄ یہ مشابہت صرف اس صورت میں ختم ہوگی کہ درمیان میں قعدہ نہ کیا جائے۔
◄ احناف کا طریقہ کہ وہ قنوت پڑھتے وقت ہاتھ اٹھا کر "اللہ اکبر” کہتے ہیں، پھر ہاتھ باندھ کر قنوت پڑھتے ہیں،
✿ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح مغرب سے مشابہت ختم ہوگئی،
✿ یہ طریقہ بدعت (محدثہ) ہے اور نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں۔

(٤) وتر کی نیت کا مسئلہ

◄ وتر کی نیت ابتداء ہی میں پہلی رکعت کے شروع میں تین رکعات کی کی جائے گی۔
◄ بیچ میں سلام کا آنا رسول اللہ ﷺ کی سنت کی وجہ سے ہے۔
◄ ہم یہ عمل بھی سنت کی پیروی ہی میں کرتے ہیں۔
◄ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ سنت کی اتباع کریں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے