عصر حاضر میں بعض حلقے، بالخصوص احناف، خواتین کے مسجد میں جانے کو سختی سے روکتے ہیں، حتیٰ کہ عیدین کی نماز یا تراویح جیسے عظیم اجتماعات میں بھی ان کی شرکت کو "مکروہ تحریمی” قرار دیتے ہیں۔ یہ موقف محض جہالت، احادیثِ نبویہ سے لاعلمی، اور صحابہ و تابعین کے طرزِ عمل سے انحراف پر مبنی ہے۔
یہ مضمون نہ صرف احناف کے پیش کردہ کمزور دلائل کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ صحیح احادیث اور صحابہ کرام کے آثار کی روشنی میں واضح کرتا ہے کہ خواتین کا مسجد میں جانا سنتِ نبویہ اور عملِ صحابہ سے ثابت شدہ امر ہے۔
════════════════════════
🔴 حنفی دلیل نمبر 1 – ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر
════════════════════════
حنفی مکتبِ فکر کی طرف سے دلیل دی جاتی ہے:
📌5795 – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ:"أَنَّهُ كَانَ لَا يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ”
📘 [مصنف ابن أبي شيبة، جلد 4، ص 234، حدیث 5795]
🔸 ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی عورتوں کو عیدین کے لیے نہیں نکالتے تھے۔
════════════════════════
🔵 الجواب 01 — سند کی تحقیق
════════════════════════
یہ اثر ضعیف اور منکر ہے۔ اس میں دو اساسی علّتیں ہیں:
1️⃣ سفیان الثوری مدلس راوی ہیں اور یہاں "عن” کے ساتھ روایت کر رہے ہیں، اس لیے ان کا "عنعنہ” مردود ہے۔
2️⃣ عبداللہ بن جابر کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
📌3244 – عبد الله بن جابرٍ أبو حمزة، البصري:"مقبول، من السادسة. حيث يتابع، وإلا فَلَيِّن الحديث”
📘 [تقريب التهذيب لابن حجر]
🔸 ترجمہ:
عبداللہ بن جابر بصری "مقبول” ہیں، یعنی صرف متابعت کی صورت میں ان کی روایت قابلِ قبول ہے، ورنہ "لین الحدیث” یعنی ضعیف ہیں۔
🛑 لہٰذا یہ اثر نہ صرف منقطع الاحتمال ہے بلکہ مدلس راوی اور ضعیف تابعی کی وجہ سے ناقابلِ استدلال ہے۔
════════════════════════
🟢 الجواب 02 — صحیح روایت ابن عمر سے
════════════════════════
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک دوسری صحیح السند روایت موجود ہے، جو ان کے اس موقف کے برخلاف ہے:
📌
5787 – حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ:"كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدَيْنِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْ أَهْلِهِ”
📘 [مصنف ابن أبي شيبة، جلد 4، ص 233، حدیث 5787]
🔸 ترجمہ:
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عیدین کے دن اپنے گھر والوں میں سے جس کو استطاعت ہوتی، اسے عید کی نماز کے لیے نکالتے تھے۔
📚 سند کی تحقیق:
-
إسماعيل بن علية: ثقة حجة حافظ
-
أيوب السختياني: ثقة ثبت حجة
-
نافع مولى ابن عمر: ثقة متفق علیہ
✅ یہ روایت جمہور محدثین کے اصول کے مطابق صحیح ہے اور ابن عمر کے اس طرزِ عمل کو واضح کرتی ہے کہ وہ اپنی خواتین کو مسجد بھیجتے تھے۔
════════════════════════
🟢 الجواب 03 — حدیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں
════════════════════════
ابن عمر رضی اللہ عنہ خود رسول اللہ ﷺ سے یہ مرفوع حدیث روایت کرتے ہیں:
📌
865 – حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:"إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَأْذَنُوا لَهُنَّ”
📘 [صحيح البخاري، کتاب الأذان، حدیث 865]
🔸 ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تمہاری بیویاں رات کو مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دیا کرو۔”
🛑 سوال: کیا ابن عمر جیسا جلیل القدر صحابی، جو خود اس مرفوع حدیث کا راوی ہے، اس کے برخلاف عمل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
📌 نتیجہ:
جو اثر ضعیف ہو، اس سے فتویٰ اخذ کرنا علمی خیانت ہے، خاص طور پر جب اس کے خلاف صحیح حدیث اور صحیح الاسناد اثر موجود ہو۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل خواتین کو مسجد بھیجنے کا تھا، نہ کہ روکنے کا۔
════════════════════════
📚 حنفی دلیل نمبر 2 – عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اثر
════════════════════════
احناف کی طرف سے دوسری دلیل درج ذیل اثر پیش کر کے دی جاتی ہے:
📌
5796 – حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ:"أَنَّهُ كَانَ لَا يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ، وَلَا إِلَى أَضْحَى”
📘 [مصنف ابن أبي شيبة، جلد 4، ص 234، حدیث 5796]
🔸 ترجمہ:
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ اپنی خواتین میں سے کسی کو بھی عیدالفطر یا عیدالاضحی کے لیے باہر نہ نکلنے دیتے۔
════════════════════════
🔵 الجواب:
════════════════════════
اولاً یہ اثر قول تابعی ہے، اور حجت صرف قرآن، سنت اور صحابہ کے اجماعی عمل سے ہوتی ہے۔ تابعی کے قول سے ایسی سنت کو ترک نہیں کیا جا سکتا جو رسول اللہ ﷺ کے دور اور صحابہ کے تعامل سے جاری رہی ہو۔
ثانیاً، عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کا جو قول یہاں بطور دلیل پیش کیا گیا، وہ حنفی موقف کے خلاف کئی اور صحیح آثار میں واضح ہو چکا ہے۔
📚 مثال 1 — قراءت خلف الامام:
📌
279 – مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ:"أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ، فِيمَا لَا يَجْهَرُ فِيهِ الْإِمَامُ”
📘 [الموطأ لمالك، باب القراءة خلف الإمام]
🔸 ترجمہ:
عروہ امام کے پیچھے ان نمازوں میں قراءت کیا کرتے تھے جن میں امام جہری قراءت نہیں کرتا تھا۔
❗ یہ قول احناف کے مسلک کے برخلاف ہے، کیونکہ وہ قراءت خلف الامام کے قائل نہیں۔
📚 مثال 2 — مسِّ ذکر سے وضو:
📌116 – حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ:
"أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ، فَقَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ”
📘 [الموطأ لمالك، باب: ما جاء في مس الذكر]
🔸 ترجمہ:
عروہ کہتے تھے کہ جس نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا، اس پر وضو واجب ہے۔
❗ یہ بھی احناف کے مسلک کے خلاف ہے، کیونکہ وہ اس فعل سے وضو کے وجوب کے قائل نہیں۔
🔍 سوال:
اگر حنفی حضرات عروہ بن زبیر کے صرف اس ایک اثر کو حجت مانتے ہیں جو ان کے مفروضہ موقف کے موافق ہو، تو دیگر صحیح آثار کو کیوں رد کرتے ہیں؟
📌 نتیجہ:
عروہ بن زبیر کا قول نہ صرف ناقابلِ استدلال ہے بلکہ جب خود انہی کے دیگر اقوال پر احناف عمل نہیں کرتے تو یہ دوہرا معیار خود اُن کے موقف کو کمزور کر دیتا ہے۔
════════════════════════
📚 حنفی دلیل نمبر 3 – قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ کا اثر
════════════════════════
احناف کی تیسری دلیل یہ ہے کہ:
📌5797 – حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ قُرَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ:
"كَانَ الْقَاسِمُ أَشَدَّ شَيْءٍ عَلَى الْعَوَاتِقِ، لَا يَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى”
📘 [مصنف ابن أبي شيبة، جلد 4، ص 234، حدیث 5797]
🔸 ترجمہ:
قاسم بن محمد بن ابی بکر نوجوان لڑکیوں کے متعلق سختی کرتے تھے، اور انہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نماز میں نکلنے کی اجازت نہ دیتے۔
════════════════════════
🔵 الجواب — سند پر جرح
════════════════════════
یہ اثر سخت ضعیف ہے، اور اس کی بنیادی علت اس کے راوی "أبو داود الطيالسي” کی حدیثی حیثیت ہے۔
📚 امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
📌491 – عبد الرحمن بن أبي حاتم، عن أبیه:"أبو داود محدث صدوق، كان كثير الخطأ”
📘 [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم]
🔸 ترجمہ:
ابو داود محدث تو صدوق تھے، لیکن بہت زیادہ خطا کرتے تھے۔
📚 حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
📌2550 – سليمان بن داود، أبو داود الطيالسي:"ثقة حافظ، غلط في أحاديث”
📘 [تقريب التهذيب]
🔸 ترجمہ:
ابو داود الطیالسی ثقہ حافظ تھے، لیکن احادیث میں غلطی کیا کرتے تھے۔
📚 ابراھیم بن سعید الجوهری فرماتے ہیں:
📌
"أخطأ أبو داود الطيالسي في ألف حديث”
📘 [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي]
🔸 ترجمہ:
ابو داود الطیالسی نے ایک ہزار احادیث میں غلطی کی۔
🛑 سند کے رجال:
-
أبو داود الطيالسي: کثیر الغلط، روایت ضعیف
-
عبد الرحمن بن القاسم: مقبول، متابعت میں قابل قبول
📌 نتیجہ:
اتنے ضعیف راوی پر مبنی قول سے ایسا فتویٰ دینا کہ خواتین مسجد نہ جائیں، خود دین کی تحریف ہے۔ جب روایت کی بنیاد ہی ضعیف ہے تو اس سے استخراجِ حکم قطعاً باطل ہوگا۔
════════════════════════
📚 حنفی دلیل نمبر 4 – ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول
════════════════════════
احناف ایک اور دلیل میں جلیل القدر تابعی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا یہ قول پیش کرتے ہیں:
📌
5798 – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ:
"كُرِهَ لِلشَّابَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى الْعِيدَيْنِ”
📘 [مصنف ابن أبي شيبة، جلد 4، ص 234، حدیث 5798 / 5844]
🔸 ترجمہ:
ابراہیم نخعی فرماتے تھے کہ نوجوان عورت کا عیدین کے لیے نکلنا مکروہ ہے۔
════════════════════════
🔵 الجواب — ابراہیم نخعی کے اقوال میں تضاد اور احناف کا معیارِ دوہرا
════════════════════════
احناف اس اثر سے استدلال کرتے ہیں، لیکن یہی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے متعدد اقوال خود حنفی فقہ کے برخلاف ہیں، جنہیں انہوں نے کبھی قبول نہیں کیا۔
📚 مثال 1 — وفات شدہ بیوی کو شوہر غسل دے سکتا ہے:
📌229 – مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ:
"الْمَرْأَةُ تَمُوتُ مَعَ الرِّجَالِ، يُغَسِّلُهَا زَوْجُهَا… وَكَذَلِكَ الرَّجُلُ مَعَ النِّسَاءِ، تَغْسِلُهُ امْرَأَتُهُ”
📘 [الآثار لمحمد بن الحسن]
🔸 ترجمہ:
ابراہیم نخعی فرماتے تھے کہ اگر عورت اپنے شوہر کے ساتھ فوت ہو جائے تو شوہر اسے غسل دے سکتا ہے، اور اسی طرح اگر مرد عورتوں کے ساتھ مرے تو اس کی بیوی اسے غسل دے سکتی ہے۔
📌 جبکہ امام ابو حنیفہ کا قول:
"أكره أن يغسل الرجل امرأته"
📘 [الآثار لمحمد بن الحسن، ص 37]
🔸 یعنی: "میں مکروہ سمجھتا ہوں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دے”
❗ پس ابراہیم نخعی کا قول ترک کر دیا گیا۔
📚 مثال 2 — مرتد عورت کا قتل:
📌589 – مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ:
"تُقْتَلُ الْمَرْأَةُ إِذَا ارْتَدَّتْ عَنِ الْإِسْلَامِ”
📘 [الآثار لمحمد بن الحسن، ص 35]
🔸 ترجمہ:
عورت اگر اسلام سے مرتد ہو جائے تو اسے قتل کیا جائے گا۔
📌 امام محمد بن حسن کا رد:
"وَهَذَا قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ، وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِهِ”
📘 [الآثار لمحمد بن الحسن]
🔸 یعنی: "یہ ابراہیم نخعی کا قول ہے، مگر ہم اسے نہیں لیتے”
📚 مثال 3 — کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے:
📌635 – مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ:
"النَّبَّاشُ إِذَا نَبَشَ عَنِ الْمَوْتَى فَسَلَبَهُمْ أَنَّهُ يُقْطَعُ”
📘 [الآثار لمحمد بن الحسن]
🔸 ترجمہ:
ابراہیم نخعی فرماتے تھے کہ جو شخص قبروں سے کفن چوری کرے، اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
📌 ابو حنیفہ کا قول:
"لَا يُقْطَعُ، لِأَنَّهُ مَتَاعٌ غَيْرُ مُحْرَزٍ”
🔸 یعنی: "اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ وہ مال محفوظ نہیں تھا”
📌 نتیجہ:
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اقوال کو ترک کر کے خود احناف نے ان کی اتباع نہ کی، تو جب وہ ان کے اقوال سے نکاح، وضو، غسل اور ارتداد جیسے بڑے احکام میں اختلاف کرتے ہیں تو عیدگاہ کے بارے میں ان کا قول کیسے حجت ہو سکتا ہے؟ یہ صرف اس وقت نقل کیا جاتا ہے جب اپنی فقہی پوزیشن کو مصنوعی تقویت دینا مقصود ہو۔
════════════════════════
📚 حنفی دلیل نمبر 5 – سفیان الثوری رحمہ اللہ کا قول
════════════════════════
احناف کی پانچویں دلیل امام سفیان الثوری رحمہ اللہ سے منسوب ایک قول ہے:
📌
540 – "وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ أَنَّهُ كَرِهَ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ إِلَى الْعِيدِ”
📘 [سنن الترمذي، كتاب الجمعة، باب ما جاء في كراهية خروج النساء في العيدين]
🔸 ترجمہ:
سفیان الثوری سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کے عید کے دن باہر نکلنے کو مکروہ کہا۔
════════════════════════
🔵 الجواب — سند کی نوعیت اور امام کی وضاحت
════════════════════════
📌 امام ترمذی نے یہاں "يُروى" کا صیغہ استعمال کیا ہے، جو صیغہ تمریض (مجہول اور ضعیف سند کے اشارے والا) ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ترمذی اس قول کو حجت نہیں سمجھتے۔
🛑 اس کے برخلاف امام سفیان الثوری کی ایک روایت امام ابن خزیمہ نے بسند صحیح نقل کی ہے:
📌1677 – قَالَ سُفْيَانُ:"حَفِظْتُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمُ امْرَأَتُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا»”
📘 [صحيح ابن خزيمة، حدیث 1677]
🔸 ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کی عورت مسجد جانے کی اجازت مانگے، تو اسے نہ روکو”
📌 امام سفیان الثوری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود اس کی وضاحت کی:
"نَرَى أَنَّهُ بِاللَّيْلِ”
📘 [صحيح ابن خزيمة]
🔸 ترجمہ:
ہم (فقہا) کا خیال ہے کہ یہ اجازت رات کے وقت کے لیے ہے۔
📚 وضاحت:
امام سفیان الثوری اس حدیث کے قائل ہیں، لیکن اس پر وقت کی قید لگاتے ہیں کہ رات کو مسجد جانا جائز ہے۔ یہ ممانعت نہیں بلکہ قیدِ حکمت ہے۔
🛑 پس جو قول ان سے سنن ترمذی میں مجہول سند سے منقول ہے، وہ خود ان کے صحیح روایت کے برخلاف ہے۔ اور چونکہ سفیان الثوری خود اس حدیث کے ناقل اور مؤید ہیں، اس لیے ان کی طرف ممانعت کی نسبت درست نہیں۔
📌 نتیجہ:
یہ کہنا کہ سفیان الثوری عورتوں کے مسجد جانے کے خلاف تھے، غلط نسبت ہے، کیونکہ وہ صحیح سند سے ثابت شدہ حدیث: "فَلَا يَمْنَعْهَا”کے قائل تھے۔ البتہ وقت کی قید ان کا اجتہاد ہو سکتا ہے، جو اصل حکم کو منسوخ نہیں کرتا۔
════════════════════════
📚 حنفی دلیل نمبر 6 – ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اثر
════════════════════════
احناف کی سب سے بڑی دلیل امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا منقول قول ہے، جسے وہ خواتین کے مسجد جانے کی مطلق ممانعت پر پیش کرتے ہیں:
📌869 – حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:
"لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ، كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ”
📘 [صحیح بخاری، کتاب الأذان، حدیث 869]
🔸 ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "اگر رسول اللہ ﷺ عورتوں کی موجودہ حالت کو دیکھ لیتے تو انہیں مسجد جانے سے روک دیتے، جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا۔”
════════════════════════
🔵 الجواب 01 — امام ابو بکر البزار کی وضاحت
════════════════════════
📌 امام البزار رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ذکر کرنے کے ساتھ ان کا دوسرا عمل بھی نقل کیا:
📌"لقد رأيتنا ونحن نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَلاةَ الْفَجْرِ فِي مروطِنا، وما يعرف بعضنا وجوهَ بعض”
📘 [مسند البزار، البحر الزخار]
🔸 ترجمہ:
ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتی تھیں، اپنے چادروں میں لپٹی ہوئی، یہاں تک کہ بعض اوقات ہم ایک دوسرے کے چہرے کو بھی نہ پہچان سکتی تھیں۔
📌 نتیجہ:
یہ جملہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مشاہدے پر مبنی ایک تنبیہ ہے، نہ کہ شریعت کا حکم۔ وہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد بعض خواتین کی بے احتیاطیوں پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں، نہ کہ مسجد جانے کی ممانعت کا فتویٰ دے رہی ہیں۔
════════════════════════
🔵 الجواب 02 — حافظ عبد الرحمن ابن الجوزی کی تشریح
════════════════════════
📌"إِنَّمَا أَشَارَتْ عَائِشَةُ بِمَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ مِنَ الزِّينَةِ وَاللِّبَاسِ وَالطِّيبِ، مِمَّا يُخَافُ مِنْهُ الْفِتْنَةُ”
📘 [كشف المشكل من حديث الصحيحين، ابن الجوزی، حدیث 2576]
🔸 ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی طرف سے زیب و زینت، خوشبو اور جدید لباس کے استعمال پر تنبیہ کی جو فتنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
📌 نتیجہ:
یہ قول کسی فتوے کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ایک اخلاقی و سماجی انتباہ ہے کہ مسجد جاتے وقت خواتین کو شرعی آداب ملحوظ رکھنے چاہییں۔
════════════════════════
📚 الجواب 03 – امام ابوبکر النیسابوری، امام ابن حزم اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ کی وضاحتیں
════════════════════════
📌 (1) امام ابوبکر النیسابوری (متوفی 319ھ) فرماتے ہیں:
"فَمَنْ قَصَدَ مِنْهُنَّ الْخَيْرَ لَمْ يُمْنَعْ مِنْهُ، وَإِنْ ظَهَرَ مِنْهُنَّ غَيْرُ ذَلِكَ، مُنِعَ إِلَّا الْعَجُوزَ الْكَبِيرَةَ، فَإِنَّهَا تَخْرُجُ كَمَا قَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ”
📘 [الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف]
🔸 ترجمہ:
جو عورت خیر و نیکی کی نیت سے مسجد آتی ہے، اسے روکا نہیں جائے گا، اور اگر کسی سے خلافِ شرع امور ظاہر ہوں تو اسے روکا جائے گا، مگر بوڑھی عورت مستثنیٰ ہے — جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی نے کہا۔
📌 نتیجہ:
یہ ممانعت مطلق نہیں، بلکہ حالات و قرائن پر مبنی ہے۔ شریعت نے نیکی کی نیت سے آنے والی خواتین کو اجازت دی ہے۔
📌 (2) امام ابن حزم اندلسی (متوفی 456ھ) فرماتے ہیں:
"أما ما حدثت به عائشة، فلا حجة فيه… لأنه ﷺ لم يُدرك ما أحدثن، فلم يمنعهن، فمنعهن بدعة وخطأ”
📘 [المحلى بالآثار، ابن حزم، کتاب الصلاة]
🔸 ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں کوئی حجت نہیں، کیونکہ نبی ﷺ نے عورتوں کی ان نئی روشوں کو نہیں پایا، تو انہیں نہیں روکا۔ لہٰذا بعد میں ان کو روکنا بدعت اور غلطی ہے۔
📌 نتیجہ:
نبی کریم ﷺ نے خواتین کو مسجد جانے سے نہیں روکا، اس لیے بعد والوں کا روکنا بدعت ہے۔
📌 (3) حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ) فرماتے ہیں:
"فَإِنَّهَا عَلَّقَتْهُ عَلَى شَرْطٍ لَمْ يُوجَدْ… وَلَمْ تَصِرِّحْ بِالْمَنْعِ، وَإِنْ كَانَ كَلَامُهَا يُشْعِرُ بِالْمَنْعِ، فَالإِحْدَاثُ مِنْ بَعْضِ النِّسَاءِ، لاَ مِنْ جَمِيعِهِنَّ، فَيُمنَعْ مَنْ أَحْدَثَتْ، لاَ الكُلّ”
📘 [فتح الباري، شرح صحیح البخاری، حدیث 869]
🔸 ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مسجد سے روکنے کو ایک شرط کے ساتھ معلق کیا ہے، جو پوری نہیں ہوئی۔ انہوں نے صراحتاً ممانعت کا حکم بھی نہیں دیا۔ اگر کسی عورت سے خلاف شرع بات ظاہر ہو تو صرف اُسے روکا جائے، نہ کہ تمام عورتوں کو۔
📌 نتیجہ:
صحیح موقف یہ ہے کہ خواتین کو عمومی طور پر روکا نہیں جائے گا، بلکہ صرف اس صورت میں جس میں فتنہ ظاہر ہو۔ اس سے پہلے حکم بحال رہے گا۔
════════════════════════
📚 صحابہ کرام کا عمل — خواتین کی مسجد میں شرکت پر عملی دلائل
════════════════════════
جب احناف ضعیف آثار یا تابعین کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں، تو ان کے مقابلے میں صحیح الاسناد، صریح احادیث اور صحابہ کرام کا عمل زیادہ وزنی اور قابلِ حجت ہوتا ہے۔
📌 (1) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ:
868 – عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:"إِنِّي لَأَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ”
📘 [صحیح البخاری، حدیث 868]
🔸 ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے لمبا کروں، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز مختصر کر دیتا ہوں، اس لیے کہ اس کی ماں پر گراں نہ گزرے۔
✅ نتیجہ:
یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ خواتین باجماعت نمازوں میں موجود ہوتی تھیں — حتیٰ کہ بچے بھی ساتھ لاتی تھیں۔
📌 (2) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان:
866 – عَنْ هِنْدِ بِنْتِ الْحَارِثِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ:"كُنَّ النِّسَاءُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذَا سَلَّمْنَ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ، قُمْنَ، وَثَبَتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَمَنْ صَلَّى مِنَ الرِّجَالِ”
📘 [صحیح البخاری، حدیث 866]
🔸 ترجمہ:
نبی ﷺ کے دور میں خواتین فرض نماز کے بعد فوراً اُٹھ جاتی تھیں، اور رسول اللہ ﷺ اور مرد حضرات کچھ دیر بیٹھے رہتے۔
✅ نتیجہ:
یہ عمل نبی ﷺ کے زمانے میں رائج تھا کہ خواتین جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتی تھیں۔
📌 (3) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان:
867 – عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:
"إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيُصَلِّي الصُّبْحَ، فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الغَلَسِ”
📘 [صحیح البخاری، حدیث 867]
🔸 ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز پڑھا چکے ہوتے، اور خواتین چادروں میں لپٹ کر مسجد سے واپس جاتیں، اندھیرے کی وجہ سے ان کو پہچانا نہیں جاتا تھا۔
✅ نتیجہ:
یہ بھی ایک قطعی ثبوت ہے کہ خواتین فجر جیسے وقت میں بھی مسجد میں شریک ہوتی تھیں۔
════════════════════════
📚 صحابیات کا تعامل — عیدین میں شرکت کا ثبوت
════════════════════════
📌 (4) حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کا بیان:
971 – عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:"كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ، حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا، وَالْحُيَّضَ، فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، يُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ، وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ، يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ”
📘 [صحیح البخاری، حدیث 971]
🔸 ترجمہ:
ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ عید کے دن نکلیں، حتیٰ کہ پردہ نشین کنواری لڑکیاں اور حائضہ خواتین بھی نکلتی تھیں۔ وہ لوگ (یعنی مردوں) کے پیچھے رہتیں، ان کے ساتھ تکبیر کہتیں، ان کے ساتھ دعا کرتیں، اور اس دن کی برکت اور طہارت کی امید رکھتیں۔
✅ نتیجہ:
یہ نبی ﷺ کا باقاعدہ حکم تھا کہ خواتین (حتیٰ کہ حائضہ بھی) عیدگاہ آئیں۔ ان کا نماز میں شریک نہ ہونا فتنے کا اندیشہ نہیں کہلاتا تھا، بلکہ حضور ﷺ کی طرف سے مشروع و مطلوب تھا۔
📌 (5) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اثر:
5785 – حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ طَلْحَةَ الْيَامِيِّ، قَالَ:
"قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَقٌّ عَلَى كُلِّ ذَاتِ نِطَاقٍ الْخُرُوجُ إِلَى الْعِيدَيْنِ”
📘 [مصنف ابن أبي شيبة، الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم]
🔸 ترجمہ:
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر صاحب نِطاق (بالغ عورت) پر عیدین کے لیے باہر نکلنا واجب ہے۔
📚 سند کے رجال:
-
حفص بن غياث: ثقة
-
حسن بن عبيد الله: ثقة
-
طلحة الیامی: ثقة
✅ نتیجہ:
خلفائے راشدین میں سے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ عیدین میں خواتین کی شرکت شرعی طور پر ضروری ہے — یہ وہ صدیقی فقہ ہے جسے نظر انداز کر کے محض ضعیف اقوال سے ممانعت ثابت کرنا دین کے خلاف ہے۔
📌 (6) زینب الثقفیہ رضی اللہ عنہا — زوجہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
📖 حدیث 1:
"إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْعِشَاءَ فَلَا تَمَسَّ طِيبًا”
📘 [صحیح مسلم، حدیث 443]
📖 حدیث 2:
"إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تَمَسَّ طِيبًا”
📘 [صحیح مسلم، حدیث 443]
🔸 ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی عورت عشاء کی نماز میں شریک ہو تو وہ خوشبو نہ لگائے۔
✅ نتیجہ:
نبی ﷺ نے عورتوں کو مسجد آنے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ ان کے لیے آداب (جیسے خوشبو سے اجتناب) مقرر فرمائے۔
📌 (7) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
"أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ”
📘 [صحیح مسلم، حدیث 444]
🔸 ترجمہ:
جو عورت خوشبو لگائے، وہ ہمارے ساتھ عشاء کی آخری نماز میں شریک نہ ہو۔
✅ نتیجہ:
روکنے کا سبب خوشبو ہے، نہ کہ عورت کا مسجد میں آنا۔
📌 (8) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کی والدہ کا عمل:
📌 امام ابو حنیفہ کے معاصر راوی حمزہ بن المغیرہ الثقفی (متوفی 180ھ) روایت کرتے ہیں:
"كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجِئُ وَيَجِئُ بِأُمِّهِ مَعَهُ، وَكَانَ مَوْضِعًا بَعِيدًا جِدًّا، وَكَانَ ابْنُ ذَرٍّ يُصَلِّي إِلَى قُرْبِ السَّحَرِ”
📘 [الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء، أخبار أبي حنيفة وأصحابه]
🔸 ترجمہ:
ابو حنیفہ رمضان میں عمر بن ذر کے ساتھ نماز (قیام اللیل/تراویح) کے لیے جاتے اور اپنی والدہ کو بھی ساتھ لے کر آتے، حالانکہ مسجد بہت دور واقع تھی اور قیام السحر تک جاری رہتا۔
✅ نتیجہ:
جس امام کے قول پر احناف عورتوں کو مسجد جانے سے منع کرتے ہیں، وہ خود اپنی والدہ کو مسجد لے جاتے تھے۔
════════════════════════
🏁 حاصلِ کلام:
● صحیح احادیث، آثارِ صحابہ اور امام ابو حنیفہ کے عمل کی روشنی میں یہ بات قطعی ہے کہ:
🔹 خواتین کو مسجد، عیدین یا تراویح کی نماز کے لیے جانے سے منع کرنا سنتِ نبوی اور سلف کے عمل کے خلاف ہے۔
🔹 جو ممانعت بیان کی جاتی ہے، وہ ضعیف اقوال اور تابعین کے محدود نظریات پر مبنی ہے، جو خود احناف کے اصولوں سے بھی ٹکراتے ہیں۔
🔹 فتنے کا اندیشہ اگر دلیل بنے تو خواتین کا بازار جانا بھی بند ہونا چاہیے — مگر آج تک کسی فقیہ نے بازار جانے پر "مکروہ تحریمی” کا فتویٰ نہیں دیا۔
🔹 اہل سنت والجماعت کو چاہئے کہ صحابیات کی اتباع میں خواتین کو مسجدوں میں آنے دیں۔