عقیقہ کرنا مستحب ہے
عقیقہ ایسے جانور کو کہتے ہیں جو نومولود بچے کی طرف سے پیدائش کے ساتویں روز ذبح کیا جاتا ہے ۔
صاحب قاموس فرماتے ہیں کہ :
والعقيقة: صوف الجذع ، والشاة التى تذبح عند حلق شعر المولود
”اور عقیقہ کھیرے کی اُون کو اور اُس بکری کو کہتے ہیں جو نومولود بچے کے بال منڈانے کے وقت ذبح کی جاتی ہے ۔“
[القاموس المحيط: ص/ 839]
صاحب معجم الوسیط نقل فرماتے ہیں کہ :
العقيقة: شعر كل مولود من الناس والبهائم ينبت وهو فى بطن أمه والذبيحة التى تذبح عن المولود يوم سبوعه عند حلق شعره
” عقیقہ (کی مختلف تعریفیں ہیں)
➊ ہر بچے کے وہ بال جو اسی وقت اگ آتے ہیں جب بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے خواہ وہ انسان کا بچہ ہو یا مویشیوں کا ۔
➋ وہ جانور جسے نومولود بچے کی طرف سے پیدائش کے ساتویں روز اس کے بال منڈانے کے وقت ذبح کیا جاتا ہے ۔“
[المعجم الوسيط: ص / 616]
عربی گرائمر میں عقیقہ کرنے کے لیے باب عَقَّ يَعُقُ (نصر) استعمال ہوتا ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: المنجد: 569 ، تحفة الأحوذى: 85/5 ، نيل الأوطار: 398/3 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 2745/4]
(ابن قدامہؒ) عقیقہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے نومولود بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے ۔
[المغني: 393/13]
(ابن اثیرؒ ) عقیقہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے نومولود بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے اور ان بالوں کو بھی کہا جاتا ہے جو بچے کے سر پر اس کی ماں کے پیٹ میں ہی نکل آتے ہیں ۔
[النهاية: 276/3 – 277]
عقیقہ کرنا سنت مؤکدہ اور مستحب عمل ہے اس لیے جو شخص استطاعت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنی اولاد کی طرف سے ضرور عقیقہ کرے ۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ عن سلمان بن عامر رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مع الغلام عقيقة فأهريقوا عنه دما وأميطو عنه الأذى
”حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچے کے ساتھ عقیقہ (لازم) ہے لٰہذا تم اس کی طرف سے قربانی کرو اور اس سے تکلیف دور کرو (یعنی اس کا سر منڈاؤ ) ۔“
[بخارى: 5472 ، كتاب العقيقة: باب إماطة الأذى عن الصبي فى العقيقة ، ابو داود: 2839 ، ترمذي: 1515 ، ابن ماجة: 3164 ، احمد: 17/4 ، دارمي: 81/2 ، حميدي: 823 ، شرح معاني الآثار: 459/1 ، بيهقى: 299/9]
➋ عن سمرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل غلام رهينة بعقيقته تذبح عنه يوم سابعه ويسمى فيه ويحلق رأسه
”حضرت سمرة رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے ، پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے ، اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال منڈائے جائیں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2463 ِ، ابو داود: 2838 ، كتاب الضحايا: باب فى العقيقة ، ترمذي: 1522 ، ابن ماجة: 3165 ، نسائي: 166/7 ، ابن الجازود: 910 ، حاكم: 237/4 ، احمد: 17/5 ، دارمي: 81/2 ، مشكل الآثار: 453/1]
➌ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ولد له ولد فأحب أن ينسك عنه فلينسك
”جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو ضرور قربانی کرے ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 2468 ، ابو داود: 2842 ، كتاب الضحايا: باب فى العقيقة ، احمد: 182/2 ، نسائي: 162/7 ، مشكل الآثار: 461/1 ، حاكم: 238/4]
(شوکانیؒ) حاصل یہی ہے کہ عقیقہ اسلام کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے ۔
[السيل الجرار: 251/3]
(ابن قدامہؒ ) اور عقیقہ سنت ہے عام اہل علم ، جن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت ابن عمر رضی الله عنہما ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، فقہائے تابعین اور ائمہ امصار شامل ہیں ، کا یہی قول ہے مگر اصحاب الرائے نے کہا ہے کہ عقیقہ سنت نہیں ہے بلکہ جاہلیت کا کام ہے ۔
[المغني: 393/13]
(ابن جبرین) عقیقہ ایسی قربانی کو کہتے ہیں جو نومولود بچے کی طرف سے ذبح کی جاتی ہے اور یہ سنت مؤکدہ ہے۔ بعض علماء کے خیال میں واجب ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے ، پیدائش کے ساتویں روز اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے ۔“ لیکن یہ حدیث محض اس کی تاکید کا فائدہ دیتی ہے اور اصل عدم وجوب ہی ہے ۔
[فتاوى إسلامية: 324/2]
(ابن عثیمینؒ) عقیقہ کے سنت یا واجب ہونے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے لیکن اکثر اہل علم کے نزدیک یہ سنت مؤکدہ ہے ۔
[فتاوى إسلامية: 324/2]
عقیقہ کے فرض یا سنت ہونے میں فقہا نے اختلاف کیا ہے:
(حسن بصریؒ ، اہل ظاہر ) عقیقہ کرنا فرض ہے ۔
(جمہور) عقیقہ کرنا سنت ہے ۔
(احناف) عقیقہ کرنا نہ تو فرض ہے نہ ہی سنت بلکہ فقط مباح و جائز ہے ۔
[نيل الأوطار: 499/3 ، بدائع الصنائع: 69/5 ، الشرح الكبير: 126/2 ، القوانين الفقهية: ص / 191 ، مغنى المحتاج: 293/4 ، المهذب:
241/1 ، المغنى: 645/8 ، بداية المجتهد: 448/1 ، المجموع: 447/8]
(راجح) راجح و برحق بات وہی ہے جو ابتداء میں بیان کر دی گئی ہے ۔