قربانی کا گوشت: کھانا، صدقہ کرنا، ذخیرہ کرنا اور عیدگاہ میں ذبح کی فضیلت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

وہ (قربانی کرنے والا ) اس سے صدقہ کرے ، خود کھائے اور ذخیرہ بھی کر سکتا ہے عید گاہ میں قربانی کرنا افضل ہے
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كلوا وادخروا وتصدقوا
” (قربانی کا گوشت) کھاؤ ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو ۔“
[مسلم: 1971 ، كتاب الأضاحي: باب بيان ماكان من النهى عن أكل لحوم الأضاحي ]
پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی غرباء کی وجہ سے یہ حکم دیا تھا:
ادّخرو ثلاثا ثم تصدقوا بما بقى
”تین دن کا گوشت ذخیرہ کر لو اور باقی گوشت صدقہ کر دو ۔“
اس کے بعد لوگوں نے آ کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ! لوگوں نے تو اپنی قربانیوں سے مشکیزے بنا لیے ہیں اور ان میں چربی کی چکناہٹ مل رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر کیا ہوا؟ اس پر لوگوں نے آپ کا (گذشتہ ) حکم بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما نهيتكم من أجل الدافة فكلوا وادخروا وتصدقوا
”میں نے تو صرف ان آنے والے (غرباء) کی وجہ سے تمہیں منع کیا تھا اب تم کھاؤ ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو ۔“
[مسلم: 1971 ، احمد: 51/6 ، ابو داود: 2812 ، نسائي: 235/7]
➋ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ضحى منكم فلا يصبحن بعد ثلالثة وبقى فى بيته منه شيئ فلما كان العام المقبل قالوا يا رسول الله: نفعل كما فعلنا العام الماضي قال: كلوا وأطعموا وادخروا فإن ذلك العام كان بالناس جهد فأردت أن تعينوا فيها
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی قربانی کرے تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں اس میں سے کوئی چیز باقی نہ ہو ۔ پس اگلے سال صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا اس سال بھی ہم اس طرح کریں جس طرح ہم نے گذشتہ سال کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخیرہ کرو ۔ بلاشبہ اُس سال لوگ مشقت میں تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ تم ان کی مدد کر دو ۔“
[بخاري: 5569 ، كتاب الأضاحى: باب ما يوكل من لحوم الأضاحى وما يتزود منها ، مسلم: 5109]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله يذبح وينحر بالمصلى
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قربانی) ذبح اور نحر عید گاہ میں کیا کرتے تھے ۔“
[بخارى: 5552 ، كتاب الأضاحي: باب الأضحى والنحر بالمصلى ، ابن ماجة: 3161 ، ابو داود: 2811 ، احمد: 108/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1