افضل قربانی: موٹا جانور اور بھیڑ میں جذع، بکری میں دوندہ شرط
تحریر: عمران ایوب لاہوری

افضل قربانی وہ ہے جو زیادہ موٹی تازی ہو اور بھیٹروں میں جذعے اور بکریوں میں دوندے سے کم عمر کا جانور کافی نہیں ہوتا
➊ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا ضحى اشترى كبشين سمينين
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے تازے صحت مند مینڈھے خرید لاتے ۔“
[مجمع الزوائد: 21/4 – 22 ، الفتح الرباني: 13 – 61]
➋ حضرت امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
كنا نسمن الأضحية بالمدينة و كان المسلمون يسمنون
”ہم مدینہ میں قربانی کے جانوروں کو موٹا کرتے تھے اور مسلمان بھی (قربانی کے جانوروں کو) موٹا کرتے تھے ۔“
[بخارى: قبل الحديث / 5553 ، كتاب الأضاحي: باب أضحية النبى بكبيشن أقرنين ويذكر سمينين]
واضح رہے کہ ان روایات میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ موٹے جانور دوسرے جانوروں سے افضل ہیں تا ہم اگر اس وجہ سے کہ موٹے جانور میں گوشت زیادہ ہو گا اور اس سے غرباء کا زیادہ فائدہ ہو سکے گا ، یہ کہہ دیا جائے کہ موٹا جانور افضل ہے تو یقیناً یہ بے جا نہ ہو گا ۔
(جمہور ) سب سے افضل اونٹ ، پھر گائے ، پھر بھیڑ اور پھر بکری کی قربانی ہے کیونکہ جس جانور میں سب سے زیادہ فقراء و مساکین کا فائدہ ہے یقیناََ وہی زیادہ بہتر و افضل ہے ۔
[نيل الأوطار: 477/3]
(ابن قدامہؒ) قربانی کے جانور کا موٹا ہونا اور عمدہ ہونا مسنون ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو تعظیم کر لے تو یہ اس کے دل کی پرہیز گاری کی وجہ سے ہے ۔“ [الحج: 32]
اس کی تعظیم سے مراد اس کا موٹا ہونا ، عمدہ ہونا اور اس کا احترام کرنا ہے کیونکہ یہ بڑے اجر اور زیادہ فائدے کا باعث ہے ۔
[المغنى: 367/13]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضان
”دوندے کے علاوہ (کوئی جانور) ذبح نہ کرو لیکن اگر اس کا ملنا مشکل ہو جائے تو بھیٹر کا کھیرا ذبح کر لو ۔“
[مسلم: 1963 ، كتاب الأضاحى: باب سن الأضحية ، احمد: 312/3 ، ابو داود: 2797 ، نسائي: 269/9 ، ابن الجارود: 904]
مسنه: (یعنی دوندا) ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ کے دانت گر چکے ہوں ۔
(نوویؒ) مسنہ اونٹ ، گائے اور بکری وغیرہ میں سے دوندے کو کہتے ہیں اور یہ واضح رہے کہ بھیڑ کے علاوہ کسی حالت میں بھی کھیرا قربان کرنا جائز نہیں ۔
[شرح مسلم: 99/13]
اور جذعہ بھیٹر کا وہ بچہ ہوتا ہے جو ایک سال کا ہو اور دوندا نہ ہو ۔
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نعمت الأضحية الجذع من الضان
”اچھی قربانی بھیٹر کا کھیرا ہے ۔“
[ضعيف: ضعيف ترمذى: 258 ، كتاب الأضاحي: باب ما جآء فى الجذع من الضان فى الأضاحي، ترمذى: 1499 ، احمد: 444/2]
➌ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
ضحي خال لي يقال له أبو بردة قبل الصلاة فقال له رسول الله: شاتك شاة لحم فقال يا رسول الله إن عندى داجنا جذعة من المعز قال: اذبحها ولن تصلح لغيرك
”انہوں نے بیان کیا کہ میرے ماموں ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے ۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا ایک بکری کا بچہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد (اس کی قربانی ) کسی اور کے لیے جائز نہیں ہو گی ۔“
[بخاري: 5556 ، كتاب الأضاحي: باب قول النبى صلی اللہ علیہ وسلم لأبي بردة ضح بالجذع من المعز ، مسلم: 1961 ، ترمذي: 1508 ، نسائي: 222/7 ، احمد: 297/4 ، شرح معاني الآثار: 172/4 ، بيهقى: 269/9 ، الحليلة لأبي نعيم: 337/4]
(شوکانیؒ ) اس حدیث میں یہ ثبوت موجود ہے کہ بکری کا کھیرا قربانی میں کافی نہیں ہے ۔
[نيل الأوطار: 476/3]
(نوویؒ) اس پر اتفاق ہے ۔
[شرح مسلم: 129/7]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1