عاشوراء کے دن گھر والوں پر وسعت کرنے کی حدیث سے متعلق تحقیق
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

🔹 عاشوراء کے دن گھر والوں پر وسعت کرنے کی حدیث — تحقیق اور رد

📜 حدیث کا متن:

"من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته”

یعنی: "جو شخص عاشوراء کے دن اپنے گھر والوں پر کشادگی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر سارا سال کشادگی فرمائے گا۔”

یہ حدیث مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل کی گئی ہے:
➤ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ
➤ حضرت جابرؓ
➤ حضرت ابوسعید خدریؓ
➤ حضرت ابوہریرہؓ
➤ حضرت ابن عمرؓ

لیکن کیا واقعی یہ حدیث صحیح ہے؟
کیا رسول اللہ ﷺ سے یہ بات صحیح سند سے ثابت ہے؟
آئیے اب اس حدیث کے مختلف طرق (روایات) پر تحقیقی نظر ڈالتے ہیں۔

─── ⋆⋅✦⋅⋆ ───

📚 روایت 1:

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے
اسے طبرانی نے "المعجم الکبیر” میں روایت کیا۔
راویوں میں الهيصم بن شداد شامل ہے جو ضعیف ہے۔

◾ ابن حبان فرماتے ہیں:
"هيصم بن شداد… الطامات يروي عن الأعمش، لا يُحتَج به”

(المجروحین: 3/97)

◾ حافظ ابن حجر کہتے ہیں:
"یہ حدیث غریب ہے… اور تمام محدثین اس کے راوی الهيصم کے ضعیف ہونے پر متفق ہیں۔”

📌 نتیجہ: یہ روایت ناقابلِ اعتماد ہے۔

─── ⋆⋅✦⋅⋆ ───

📚 روایت 2:

حضرت جابرؓ سے
اسے بیہقی نے "شعب الایمان” میں بیان کیا۔

راویوں میں محمد بن یونس الکدیمی شامل ہے، جس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"محمد بن يونس الكديمي يضع الحديث على الثقات”

المجروحين (2/303)

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"هالك… قال ابن حبان وغيره: يضع الحديث على الثقات”

المغني في الضعفاء (2/646)

اسی روایت میں ایک اور راوی عبد اللہ بن ابراہیم الغفاری بھی موضوع حدیثیں گھڑنے کے الزام میں مشہور ہے۔

الإمام الذهبي رحمہ اللہ نے فرمایا:

"عبد الله بن إبراهيم بن أبي عمرو الغفاري، شيخ ابن عرفة: متهم بالوضع.” 

"عبد اللہ بن ابراہیم الغفاری، ابن عرفہ کا شیخ ہے، اور حدیث گھڑنے کا متہم ہے۔”

📘 المغني في الضعفاء (1/330)

📌 نتیجہ: یہ روایت بھی شدید ضعیف اور ناقابلِ حجت ہے۔

📚 روایت 3:

حضرت جابرؓ سے ایک اور سند سے
یہ روایت ابن عبد البر نے "الاستذکار” (10/140) میں ذکر کی، جس میں راوی الفضل بن الحباب شامل ہے۔

◾ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"هٰذا حديث منكر جداً”

(یعنی: یہ حدیث سخت منکر ہے)

الأمالي المطلقة (ص 28–29)

◾ سید السیوطی نے بھی نقل کیا کہ:
"اس کی سند اگرچہ بظاہر صحیح لگتی ہے، مگر راوی الفضل بن الحباب کی کتابیں جل گئیں، اس کے بعد وہ احادیث اپنی یادداشت سے بیان کرنے لگا، جس کی وجہ سے اس سے منکر احادیث نقل ہوئیں۔”

اللآلئ المصنوعة للسيوطي (ج 2 / ص 63)

➤ اس کے علاوہ راوی ابو الزبیر ہیں، جو مدلس ہیں اور یہ حدیث عن (بغیر تصریح سماع) سے نقل کی، جو مزید کمزوری کی دلیل ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں اپنی کتاب تعريف أهل التقديس میں ذکر کیا:

"أبو الزبير المكي، مشهور بالتدليس.”

تعريف أهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس (ص 148، رقم: 95)

📌 نتیجہ: یہ طریق بھی قابلِ قبول نہیں۔

─── ⋆⋅✦⋅⋆ ───

📚 روایت 4:

حضرت ابوسعید خدریؓ سے
اس روایت کو ابن ابی الدنیا نے "العیال” میں اور طبرانی نے "المعجم الأوسط” میں نقل کیا۔

اس روایت میں کئی راوی مجہول ہیں اور بعض ضعیف جیسے:
➤ عبد اللہ بن نافع
➤ ایوب بن سلیمان
➤ محمد بن اسماعیل الجعفری

◾ الہیثمی اور شیخ البانی رحمہما اللہ نے واضح کیا کہ:
"محمد بن اسماعیل الجعفری ضعیف اور متروک ہے۔”

🔸 1. علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وفيه محمد بن إسماعيل الجعفري، وهو متروك.”

مجمع الزوائد (ج 3، ص 189)

2. شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"قال الطبراني: تفرد به محمد بن إسماعيل الجعفري.”قلت (الألباني): وهو متروك، كما قال أبو نعيم، وقال أبو حاتم: منكر الحديث، يتكلمون فيه.”

السلسلة الضعيفة (حدیث 6248، ج 14، ص 741)

📌 نتیجہ: روایت ضعیف، حجت نہیں بن سکتی۔

─── ⋆⋅✦⋅⋆ ───

📚 روایت 5:

حضرت ابوہریرہؓ سے
روایت کے راوی:
➤ حجاج بن نصیر (ضعیف)
➤ محمد بن ذکوان (منکر الحدیث)
➤ سلیمان بن ابی عبداللہ (مجہول)

قال العقيلي:
"سليمان بن أبي عبد الله: مجهول بالنقل، والحديث غير محفوظ.”

الضعفاء الكبير للعقيلي (ج 2 / ص 201، ترجمہ رقم: 848)

📌 نتیجہ: سند مسلسل علل (کمزور راویوں) سے بھری ہوئی ہے، لہٰذا ناقابلِ قبول ہے۔

📚 روایت 6:

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے
اس روایت کو خطیب بغدادی اور ابن الجوزی نے مختلف اسناد سے نقل کیا۔

🔸 ایک سند میں "هلال بن خالد عن مالک عن نافع عن ابن عمر” ہے —
لیکن اس میں کئی مجہول راوی ہیں اور امام مالکؒ سے بھی ثابت نہیں۔

◾ السيوطي فرماتے ہیں:
"فِي إِسْنَاده غير وَاحِد مِنَ المجهولين، وَلَا يثبت عَنْ مَالك”

اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (ج 2 / ص 96)

🔸 دوسری سند میں یعقوب بن خُرَّة ہے، جو ضعیف ہے۔

◾ الدارقطني فرماتے ہیں:
"حديث منكر، ويعقوب بن خرة ضعيف”

العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي (حديث رقم: 909)

◾ امام ذہبی فرماتے ہیں:
"له خبر باطل، لعله وَهِمَ”
(اس کی نقل کردہ حدیث باطل ہے، غالباً اسے وہم ہوا)

ميزان الاعتدال (ترجمة يعقوب بن خرة)

📌 نتیجہ: ابن عمرؓ سے منقول دونوں سندیں منکر اور غیر معتبر ہیں۔

─── ⋆⋅✦⋅⋆ ───

📌 اہلِ علم کی آراء

◾ امام احمد بن حنبلؒ سے جب یہ حدیث پوچھی گئی تو فرمایا:
"لَا أَصْلَ لَهُ”

(اس کی کوئی اصل نہیں)

مجموع الفتاوى لابن تيمية (ج 25 / ص 300)

◾ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
"یہ روایت اس وقت گھڑی گئی جب رافضیوں نے عاشوراء کو ماتم کا دن بنایا، تو مخالفین نے اس کے مقابلے میں اسے عید کا دن بنانے کی روایت گھڑ لی۔ دونوں طرف غلطی ہے۔”

(اقتضاء الصراط المستقیم: 2/132)

◾ امام عقیلیؒ فرماتے ہیں:
"اس بارے میں نبی ﷺ سے کوئی صحیح روایت ثابت نہیں”

(الضعفاء الكبير: 3/252)

◾ شیخ البانیؒ کا فیصلہ:
"یہ حدیث تمام طرق سے ثابت نہیں، اور اس پر عمل بدعت ہے”

(السلسلة الضعيفة: 14/743)

─── ⋆⋅✦⋅⋆ ───

🧾 خلاصہ اور تنبیہ

📌 عاشوراء کے دن گھر والوں پر خاص کشادگی کی حدیث:

➤ کئی صحابہ سے منسوب روایات کے باوجود،
➤ تمام اسانید میں یا تو ضعیف راوی ہیں،
➤ یا منکر، متروک، اور مجہول افراد موجود ہیں،
➤ بعض روایات میں تو کذاب اور وضاع (جھوٹی حدیث گھڑنے والے) راوی بھی موجود ہیں۔

📚 اہلِ علم کا اجماعی فیصلہ:

✅ اس روایت کی کوئی صحیح، حسن یا قابلِ قبول سند موجود نہیں
✅ اس پر عمل کرنا شرعاً درست نہیں
✅ اسے پھیلانا عوام کو بدعت کی طرف لے جانا ہے

⚠ اہم تنبیہ:

یہ روایت بظاہر نرمی اور رحمت کی بات کرتی ہے، لیکن جب سند ہی جھوٹی ہو تو ایسی بات پر عمل کرنا دین میں نئی بات (بدعت) ہے، جو کہ گناہ ہے۔

🔍 جو عمل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو، وہ دین نہیں بن سکتا — چاہے وہ کتنا ہی خوش نما کیوں نہ لگے۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1