جو شخص میزبانی کی طاقت رکھتا ہو اس پر مہمانوں کی خدمت کرنا واجب ہے اور مہمان نوازی کی حد تین دن ہے اور اس سے زائد صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پاس اتنے دن ٹھہرے جس سے اسے تنگی میں ہی ڈال دے اور اگر طاقت رکھنے کے باوجود میزبان اپنا فرض ادا نہ کرے تو مہمان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی میزبانی کے مطابق اس کے مال سے (زبردستی) وصول کر لے
ضيافت سے مراد مہمان نوازی کا کھانا ہے ۔ باب ضَافَ يَضِيفُ (ضرب) ”مہمان ہونا“ ۔ باب ضَيْف يُضَيِّفُ (تفعیل) ”مہمان بنانا ، مہمانی کا کھانا پیش کرنا“ اور باب اِستَضَافَ يَسْتَضِيفُ (استفعال) ”ضیافت طلب کرنا“ کے معانی میں مستعمل ہیں ۔
[لسان العرب: 107/8 – 108 ، المنجد: ص/505]
➊ حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته قالوا: وما جائزته يا رسول الله؟ قال: يوم وليلة ، والضيافة ثلاثة أيام فما كان وراء ذلك فهو صدقة ولا يحل له أن يثوى عنده حتى يحرجه
”جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے (خاص) عطیے سے مہمان کا اکرام کرے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ! عطیے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن اور ایک رات اور مہمان نوازی تین دن ہے ۔ اس سے زائد صدقہ ہے ۔ اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کے پاس اتنی دیر ٹھہرے کہ اسے تنگی میں ڈال دے ۔“
[بخاري: 6135 ، كتاب الأدب: باب إكرام الضيف وخدمته إياه بنفسه ، مسلم: 48 ، مؤطا: 929/2 ، ابو داود: 3748 ، ترمذي: 1967 ، ابن ماجة: 3675 ، بيهقي: 197/9 ، أحمد: 31/4]
➋ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لیے ) بھیجتے ہیں اور راستے میں ہم بعض قبیلوں کے دیہاتوں میں قیام کرتے ہیں لیکن وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے تو آپ اس سلسلے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إن نزلتـم بـقـوم فـأمـرو الـكـم بما ينبغى للضيف فاقبلوا فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذى ينبغي لهم
”جب تم ایسے لوگوں کے پاس جا کر اُترو اور وہ جیسا دستور ہے مہمانی کے طور پر تمہیں کچھ دیں تو اسے منظور کر لو ، اگر نہ دیں تو مہمانی کا حق قاعدے کے موافق ان سے وصول کر لو ۔“
[بخاري: 6137 ، كتاب الأدب: باب إكرام الضيف وخدمته إياه بنفسه ، مسلم: 1727 ، ابو داود: 3752 ، ترمذي: 1589 ، ابن ماجة: 3676 ، احمد: 149/4 ، بيهقي: 197/9]
➌ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليلة الضيف واجبة عـلـى كـل مـسـلـم فـإن أصبح بفنائه محروما كان دينا له عليه ، إن شاء اقتضاه وإن شاء تركه
”مہمان کی ایک رات (خدمت ) ہر مسلمان پر واجب ہے اگر اس نے محرومی کی حالت میں اس کے صحن میں صبح کی تو اس کے لیے میزبان پر قرض ہو گا اگر چاہے تو اسے ادا کرے اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ دے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2966 ، كتاب الأدب: باب حق الضيف ، ابن ماجة: 3677 ، أحمد: 130/4 ، الأدب المفرد: 744 ، ابو داود: 3750]