جب ذبح کرنا کسی سبب سے مشکل ہو جائے تو تیر یا نیزہ مار کر اسے حلال کرنا بھی درست ہے اور یہ ذبح کی طرح ہی ہو گا
➊ امام بخاریؒ نے یہ باب قائم کیا ہے:
باب: إذا نـد بعير لقوم ، فرماه بعضهم بسهم فقتله فأراد إصلاحهم فهـو جـائـز لخبر رافع عن النبى
”باب ، جب کسی قوم کا کوئی اونٹ بدک جائے اور ان میں سے کوئی شخص خیر خواہی کی نیت سے اسے تیر سے نشانہ لگا کر مار ڈالے تو جائز ہے؟ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ حدیث اس کی تائید کرتی ہے ۔“
[بخارى: قبل الحديث / 5544 ، كتاب الذبائح والصيد]
➋ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ۔ ایک اونٹ بدک کر بھاگ پڑا ، پھر ایک آدمی نے تیر سے اسے مارا اور اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا ، بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن لها أوابـد كـأوابد الوحش فما عليكم منها فاصنعوا به هكذا
”يہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں ، اس لیے ان میں سے جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائیں ، ان کیساتھ ایسا ہی کیا کرو ۔“
[بخاري: 5544 ، كتاب الذبائح والصيد: باب إذا ند بعير لقوم ، مسلم: 1968 ، ترمذي: 1492 ، ابو داود: 2821 ، نسائي: 228/7 ، ابن ماجة: 3183 ، بيهقى: 246/9]
(شوکانیؒ ) اس حدیث سے یہ جواز نکلتا ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے پر تیر مار کر زخمی کیا ہوا جانور کھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ وحشی جانوروں کی طرح حرکتیں کر رہا ہو ۔
[نيل الأوطار: 221/5]