ہدیہ قبول کرنا اور ہدیہ دینے والے کو بدلے میں کوئی تحفہ وغیرہ دینا مشروع ہے
لغوی وضاحت: لفظِ هديه تحفہ کے معنی میں ہے۔ باب أَهْدَى يُهْدِى (إفعال) ہدیہ دینا اور باب تَهَادَى یهَادَي (تفاعل) ”ایک دوسرے کو ہدیہ دینا“ ، کے معانی میں مستعمل ہیں ۔ هديه کی جمع هدايا ، هداوي اور هداو ہے۔
[القاموس المحيط: ص/ 1734 ، المنجد: ص/ 1004]
اصطلاحی تعریف: بغیر عوض کے کسی شخص کو کوئی مال یا حق دے دینا ہدیہ کہلاتا ہے نیز ہبہ بھی اسی کے مترادف ہے ۔
[المغنى: 591/5 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 3981/5]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو دعيت إلى كراع أو ذراع لأجبت ولو أهدى إلى ذراع لقبلت
”اگر مجھے کسی جانور کے کھر یا بازو کی طرف دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا اور اگر مجھے کوئی بازو یا کھر ہدیہ میں دیا جائے تو میں اسے بھی قبول کروں گا ۔“
[بخاري: 5178 ، كتاب النكاح: باب من أجاب إلى كراع ، احمد: 209/3 ، ترمذي: 1338 ، ابن حبان: 349/7 ، 5267 ، بيهقي: 169/6 ، شرح السنة: 36/7]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يقبل الهدية ويثيب عليها
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے اور اس کا بدلہ بھی دیا کرتے تھے ۔“
[بخاري: 2585 ، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها: باب المكافأة فى الهبة ، ابو داود: 3536 ، ترمذي: 1953]
ہدیوں کا مسلمان اور کافر کے درمیان تبادلہ بھی جائز ہے
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا [لقمان: 15]
”اور اگر وہ دونوں (یعنی والدین) تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا ، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا ۔ “
مراد یہ ہے کہ اگر دین کے معاملات میں والدین رکاوٹ بنیں تو ان کی نہ مانو اور اگر دنیاوی معاملات ہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک سے ہی پیش آؤ خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کو تحفے تحائف دیے جا سکتے ہیں ۔
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أهدى كسرى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبل منه ، و أهدى له قيصر فقبل منه ، وأهدت له الملوك فقبل منها
”كسری (ایران کے بادشاہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ بھیجا تو آپ نے اسے قبول فرمایا ، قیصر (روم کے بادشاہ) نے ہدیہ بھیجا تو آپ نے اسے بھی قبول فرمایا ، اسی طرح مختلف بادشاہوں نے آپ کو ہدیے بھیجے آپ نے ان سب کو قبول فرمایا ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي ، ترمذي: 1572 ، كتاب السير عن رسول الله: باب ما جاء فى قبول هدايا المشركين الفتح الرباني: 168/15]
➌ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میری والدہ مشرکہ تھیں ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریش کے ساتھ صلح کے زمانہ میں اپنے والد کے ساتھ (مدینہ منورہ) آئیں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق پوچھا کہ میری والدہ آئی ہیں اور وہ اسلام سے الگ ہیں (کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نعم ، صلى أمك
”ہاں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔“
[بخاري: 5979 ، كتاب الأدب: باب صلة المرأة أمها ولها زوج]
امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت :
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ [الممتحنة: 8]
”جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا ۔“
اسی عورت کے متعلق نازل فرمائی ۔
[بخاري: 5978 ، كتاب الأدب: باب صلة للوالد المشرك]
➍ دومتہ الجندل کے سردار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی جبہ بطور ہدیہ دیا ۔
[بخاري: 2615 ، 2616 ، 3248 ، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها: باب قبول الهدية من المشركين]
➎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد ثقیف کا ہدیہ بھی قبول فرمایا ۔
[ضعيف: ضعيف نسائي: 241 ، كتاب العمري: باب غطية المرأة بغير إذن زوجها ، نسائي: 3789]
➏ فروہ جذامی نے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خچر ہدیہ میں دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم حنین کو اس پر سواری کی۔
[مسلم: 1775 ، كتاب الجهاد والسير: باب فى غزوه حنين]
➐ یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر آلود بکری کا ہدیہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کیا ۔
[بخاري: 2617 ، كتاب الهبة: باب قبول الهدية من المشركين ، مسلم: 2190]
➑ یوحنا بن روبہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید خچر ہدیہ میں دیا ۔
[تلخيص الحبير: 155/3]
➒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کی بطور ہدیہ دی ہوئی لمبے آستین کی پوستین پہنی ۔
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 874 ، كتاب اللباس: باب من كرهه ، ابو داود: 4047]
آئندہ حدیث بظاہر گذشتہ احادیث کے مخالف معلوم ہوتی ہے:
حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ نے حالت مشرک میں ایک اونٹنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا، نہیں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إني نهيت عن زبد المشركين
”مجھے مشرکین کی میل کچیل (قبول کرنے سے) منع کیا گیا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2630 ، كتاب الخراج والإمارة والفئ: باب فى الإمام يقبل هدايا المشركين ، ابو داود: 3057 ، ترمذي: 1577 ، فتح البارى: 231/5 ، الفتح الرباني: 169/15]
ان احادیث میں تطبیق اس طرح دی گئی ہے:
➊ ممکن ہے کہ ممانعت کی حدیث منسوخ ہو چکی ہو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدیے قبول فرمائے ہیں ۔
[معالم السنن للخطابي: 41/3]
➋ تحفہ رد کر کے غصے کا اظہار محض اس لیے کیا تا کہ یہ چیز اسے اسلام پر ابھارے ۔
➌ مشرک کی محبت دل میں پیدا ہو جانے کے اندیشے سے آپ نے رد کر دیا ۔
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اُن مشرکوں کے ہدیے قبول کیے جو اہل کتاب تھے ۔
➎ ممانعت اُس ہدیے میں تھی جو خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا اور آپ نے اُس ہدیے کو قبول کیا جو تمام مسلمانوں کے
لیے تھا۔
[نيل الأوطار: 62/4]
(راجح) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ہدیہ قبول کرنے سے انکار کیا جو اپنے ہدیے کے ذریعے محض دوستی و موالاۃ چاہتا تھا اور ان لوگوں کے ہدیے آپ نے قبول فرمائے جن سے یہ امید ہوتی تھی کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان کے دلوں میں اسلام کی محبت و الفت اتر جائے گی ۔
[فتح البارى: 551/5]
اسے (ہدیہ ) واپس لینا حرام ہے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العائد فى هبته كا لكلب يقيئ ثم يعود فى قئه
”ہبہ کر کے واپس لینے والا اُس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے پھر اسے چاٹ لیتا ہے ۔“
[بخاري: 2621 ، 2622 ، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها ، باب لا يحل لأحد أن يرجع فى هبته وصدقته]
(احناف) کسی شرعی رکاوٹ کے بغیر ہبہ واپس لینا جائز ہے۔
[حلية العلماء: 52/6 ، المبسوط: 52/12 ، شرح فتح القدير: 499/7 ، الكافي: ص/531]
احناف کا یہ مؤقف درست نہیں کیونکہ گذشتہ صحیح حدیث کے خلاف ہے ۔