قرآن کی تلاوت و تعلیم پر اجرت کے جواز و عدم جواز کے دلائل کا جائزہ
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قرآن کی تلاوت پر اُجرت ، جواز اور عدم جواز کے دلائل کا جائزہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک گروہ دوران سفر عرب قبائل کے کسی قبیلہ میں ٹھہرا۔ ضیافت طلب کرنے پر اہل قبیلہ نے انکار کر دیا چنانچہ جب ان کا سردار ڈسا گیا اور بارہا علاج کے باوجود صحت یاب نہ ہوا تو وہ صحابہ کے پاس دم کرانے کی غرض سے حاضر ہوئے ۔ ضیافت سے انکار کی وجہ سے صحابہ نے بغیر معاوضے کے دم کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر بکری کے عوض ایک صحابی نے سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو سردار اچھا ہو گیا۔ معاوضہ ملنے پر جب بعض افراد نے تقسیم کا مشورہ دیا تو دم کرنے والے صحابی نے اس سے پہلے نبی صلى الله عليه وسلم سے پوچھ لینا ناگزیر سمجھا ۔ چنانچہ واپسی پر جب صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کس نے بتایا کہ یہ (فاتحہ ) دم ہے پھر فرمایا:
اقتسموا واضربوا لي معكم سهما
”اسے تقسیم کر کے میرا حصہ بھی نکالو ۔“
ایک روایت میں ہے کہ ”جب معاوضہ پر دم کرنا صحابہ نے ناپسند کیا اور واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتاب اللہ پر اجرت لینے کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله
”اُجرت کی مستحق اشیا میں سب سے زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے ۔“
[بخاري: 5737 ، 2276 ، كتاب الطب: باب الشرط فى الرقية بقطيع من الغنم ، مسلم: 2201 ، ابو داود: 3900 ، ترمذى: 2064 ، ابن ماجة: 2156 ، احمد: 10/3]
اس مسئلے میں علما کا اختلاف ہے۔
قرآن کی تعلیم پر اُجرت سے منع کرنے والوں کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو قرآن سکھایا تو اس نے مجھے بطور ہدیہ ایک کمان دی۔ میں نے اس کا ذکر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أخذتها أخذت قوسا من النار
”اگر تو نے اسے لیا تو تو نے آگ کی کمان پکڑی ۔ “
تو میں نے اسے (کمان کو ) واپس کر دیا ۔
[صحيح: الصحيحة: 256 ، إرواء الغليل: 1493 ، ابن ماجة: 2158 ، كتاب التجارات: باب الأجر على تعليم القرآن ، بيهقى: 125/6 – 126]
➋ اسماعیل بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ جب عبد الملک بن مروان نے مجھے کہا اے اسماعیل ! میرے بچے کو تعلیم دو میں تمہیں اس کا معاوضہ (اُجرت ) بھی عطا کروں گا تو میں نے کہا اے امیر المومنین ! یہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ اُم درداء رضی اللہ عنہا نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أخذ على تعليم القرآن قوسا قلده الله قوسا من نار يوم القيمة
”جس نے تعلیم القرآن کے عوض کوئی کمان پکڑی اللہ تعالی اسے قیامت کے دن آگ کی کمان کا قلادہ پہنائیں گے ۔“
عبد الملک نے اسماعیل سے کہا ، میں تمہیں قرآن کے بدلے میں نہیں بلکہ نحو کے بدلے میں (معاوضہ ) دوں گا۔
[صحيح: الصحيحة: 256 ، بيهقى: 126/6 ، تاريخ دمشق: 427/2]
➌ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قرأ القرآن فليسئل الله به فإنه سيجيي أقوام يقرء ون القرآن يسألون به الناس
”جو قرآن پڑھے وہ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ سے سوال کرے عنقریب ایسی اقوام آئیں گی جو قرآن پڑھیں گی اور اس کے عوض لوگوں سے سوال کریں گی ۔“
[صحيح: الصحيحة: 257 ، ترمذى: 55/4 ، أحمد: 432/4]
➍ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعلموا القرآن وسلوا الله به الجنة قبل أن يتعلمه قوم يسٔالون به الدنيا
”قرآن سیکھو اور قبل اس کے کہ کوئی قوم اس کے ذریعے دنیا کا سوال کرے تم اللہ سے جنت کا سوال کرو ۔“
قرآن کو تین طرح کے اشخاص پڑھتے ہیں۔ ایسا شخص جو اس کے ذریعے فخر و تکبر کرتا ہے۔ دوسرا وہ شخص جو اسے ذریعہ معاش بناتا ہے اور تیسرا وہ شخص جو اسے خالصتا اللہ کے لیے پڑھتا ہے۔
[صحيح: الصحيحة: 258 ، قيام الليل لابن النصر: ص/ 74]
➎ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت ہمارے پاس آ کر فرمایا جب ہم دیہاتی و عجمی سب (اکٹھے ) قرآن پڑھ رہے تھے: پڑھو ۔ سب اچھا ہے ۔ عنقریب ایسی اقوام آئیں گی جو اسے اس طرح کھڑا کریں گی جیسے تیر کھڑا کیا جاتا ہے وہ تاخیر (آخرت) کے بجائے اسے جلدی (دینا ) طلب کریں گی۔
[صحيح: الصحيحة: 259 ، ابو داود: 132/1]
➏ حضرت عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن پڑھو اور اس کے بدلے مت کھاؤ اور نہ اس کے بدلے زیادہ (مال) طلب کرو اور نہ اس سے بے رغبتی اختیار کرو اور نہ اس میں خیانت کرو۔“
[صحيح: الصحيحة: 260 ، شرح معاني الآثار: 10/2 ، أحمد: 428/3 ، طبرانى أوسط: 142/1 ، ابن عساكر: 486/9]
(احناف) ➊ اُجرت لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہیں ۔
[رد المختار: 35/5]
➋ اذان ، حج ، امامت اور تعلیم القرآن پر اُجرت لینا جائز نہیں۔
[الهدايه: 303/2]
ان کی دلیل ہے کہ تبلیغ الاحکام الشرعیہ نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح واجب ہے اور واجب عمل کا اجر اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جاتا ہے انسانوں سے نہیں تا ہم دم پر اُجرت کا جواز واضح نص کی وجہ سے بہر حال موجود ہے۔
[الروضة الندية: 279/2 ، نيل الأوطار: 324/5]
(شوکانیؒ) کتاب اللہ کی اُجرت کے عموم سے تعلیم القرآن کو خاص کر کے خارج کر دینا ہی زیادہ ظاہر و مناسب ہے۔
[نيل الأوطار: 326/5]
قرآن کی تعلیم پر اُجرت کو جائز قرار دینے والوں کے دلائل:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”أجرت کی مستحق اشیا میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے۔“
[بخاري: 5737]
➋ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم القرآن کو حق مہر کا عوض قرار دیتے ہوئے فرمایا:
ملكتكها بما معك من القرآن
”میں نے تجھے قرآن کے عوض اس (عورت) کا مالک بنا دیا۔“
[بخاري: 4642 ، كتاب فضائل القرآن: باب القراءة عن ظهر القلب ، نسائي: 3287 ، ترمذي: 1032 ، ابو داود: 1806]
➌ جمہور علما حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خلوص دیکھتے ہوئے عوض (یعنی قوس) لینا ناپسند کیا ہو ۔
[نيل الأوطار: 324/5]
➍ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے ضعف کا اعتراف کرتے ہوئے شیخ البانیؒ نے فرمایا کہ اس کی دو سندیں ہیں:
① بیہقی کے طریق سے
② ابن ماجہ کے طریق سے
① بیہقی کی سند تین علل کی بنا پر ضعیف ہے:
1. انقطاع
2. جہالت
3. اضطراب
② ابن ماجہ کی سند میں ثور بن یزید اور عبد الرحمن کے درمیان ایک راوی خالد بن معدان ساقط ہے اور آخر میں فرماتے ہیں کہ :
وجملة القول أن الحديث بهذا الإسناد ضعيف
”مختصر بات یہ ہے کہ اس سند کے ساتھ حدیث ضعیف ہے۔ “
لیکن اس کے لیے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی حدیث سے شاہد موجود ہیں جو اسے درجہ صحت تک پہنچاتے ہیں ۔
[إرواء الغليل: 1493]
(مالکؒ) انہوں نے اُس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو حق مہر کا عوض بنایا اور فرمايا كه
وبذلك جاز أخذ الأجرة على تعليم القرآن
”اس سے تعلیم القرآن پر اجرت لینے کا جواز نکلتا ہے۔“
[كما فى فتح البارى: 121/9]
(ابن حزمؒ ) تعلیم القرآن پر اُجرت لینے کے ناجائز ہونے کی تمام احادیث صحیح نہیں ہیں۔
فلا يصح منها شيئ
[المحلى: 15/9]
(قرطبیؒ) احناف کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”مخالفین کا نماز ، روزہ پر قیاس نص کے مخالف ہونے کی وجہ سے فاسد ہے ۔
پھر ان دونوں (نماز اور تعلیم القرآن) میں یہ فرق بھی ہے کہ نماز ، روزہ فاعل کے ساتھ مختص عبادات ہیں جبکہ تعلیم القرآن معلم کے غیر کی طرف متعدی ہے۔ اس لیے قرآن کی کتابت کی تعلیم کی مانند اسے نقل (تعلیم القرآن کا ایک شخص سے دوسرے کی طرف منتقل ہونا) کی کوشش پر بھی اُجرت کا جواز ہے۔
[تفسير القرطبي: 335/1]
(شعبیؒ) معلم کو شرط (یعنی طلب کرنے ) کے علاوہ کچھ دیا جائے تو اسے قبول کرنا چاہیے۔
[بخاري: كتاب الإجارة: باب ما يعطى فى الرقية على أحياء العرب]
(حکم بن عتیبہؒ ) میں نے کسی کو معلم کی اُجرت پر کراہت کرتے ہوئے نہیں سنا۔
[أيضا]
(حسنؒ) انہوں نے معلم کو (بطور اُجرت ) دس درہم دیے۔
[أيضا]
(عطاءؒ) یہ جواز کے قائل ہیں ۔
[المحلى: 15/9]
(ابو قلابہؒ) تعلیم القرآن پر اُجرت جائز ہے۔
[أيضا]
(ابن منذرؒ ) انہوں نے احناف کا رد کرتے ہوئے جواز ثابت کیا ہے۔
[تفسير قرطبي: 335/1]
(امیر صنعانیؒ) قراءت قرآن تعلیم کے لیے ہو یا طب کے لیے اس میں کوئی فرق نہیں ۔
[سبل السلام: 1234/3]
(عبد المنعم ابراہیم ) انہوں نے جواز کے قول کو ہی برحق قرار دیا ہے۔
[قفو الأثر: 1114/3]
حديث
إن أحق ما أخذ كم عليه أجرا كتاب الله
میں کتاب اللہ کی اُجرت کا عموم تعلیم القرآن کی اُجرت کے جواز پر بھی دلالت کرتا ہے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ :
العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب
”لفظِ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے ، سبب کی خصوصیت کا نہیں ۔“
[القوائد والفوائد الأصولية: 240/1 ، المستصفى: 236/1 ، الإبهاج: 184/2]
(راجح) تعلیم القرآن پر اُجرت لینا جائز ہے اس کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے:
➊ ممانعت کی احادیث میں ”خاص واقعات و شخصیات کے متعلق ہونے کے سبب“ تاویل کا احتمال ہے اور ان میں مطلق منع کی وضاحت بھی نہیں ۔
[فتح البارى: 540/4]
➋ ممانعت کی روایات میں سے اکثر ضعیف ہیں اور اگر کسی میں کچھ صحت ہے تو بھی درجہ میں اثبات کی احادیث سے بہت کم ہے ۔
➌ صحیح احادیث کے معانی کو قرآن کی ان آیات کے مفہوم پر محمول کیا جائے گا۔
وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا [البقرة: 41]
”میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ خریدو ۔“
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا [البقرة: 174]
”بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے قرآن میں نازل کردہ احکامات کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت خریدتے ہیں۔“
➍ عقل بھی اس موقف کو رد کرتی ہے کہ ہم دنیاوی ملازم کو تو اُجرت دیں لیکن دین کے خادم کو کچھ نہ دیں۔
➎ اگر بالفرض ہم مانعین کے دلائل اور ان کے معانی و مفاہیم کو تسلیم کر لیں اور معلم القرآن کو اُجرت نہ دیں تو اس سوال کا کیا جواب ہے کہ وہ کہاں سے کھائے پیے گا؟ اپنے اہل و عیال کو کہاں سے کھلائے گا؟ یقیناً نتیجہ دو صورتوں میں سامنے آئے گا۔
① یا تو وہ تعلیم کے کام کو چھوڑ کر کاروبار شروع کر دے گا۔
② یا پھر ایسی جگہ تلاش کرے گا جہاں اسے معقول اُجرت ملے۔
➏ اس مسئلے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے لیے یہ بات پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ معلم کسی اسلامی ملک میں قیام پذیر ہے یا غیر اسلامی ملک میں۔ اور یہ بھی کہ اس کا تعلیم کے علاوہ اپنا کاروبار ہے یا نہیں۔
➐ اگر وہ کسی غیر اسلامی ریاست میں ہے ، اس کا ذاتی کاروبار مضبوط ہے ، لوگ اس سے تعلیم سیکھنے کے مشتاق و خواہشمند ہیں اور مد مقابل مخالفت و مزاحمت کی فضا بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کا اسلامی فریضہ ہے کہ وہ بغیر اُجرت کے بھی تعلیمی سرگرمیوں کو حسب توفیق جاری رکھے اور عوامی عدم تعاون کو فریضہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنائے ، اگرچہ اس کا جواز موجود ہے۔
➑ اگر ریاست اسلامیہ اور قوانینِ اسلام کا نفاذ ہے تو حکمران طبقہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معلمین و مدرسین کے لیے حسبِ ضرورت تنخواہ مقرر کریں جیسا کہ آثارِ صحابہ سے بھی یہ ثابت ہے۔
➒ اگر اسلامی مملکت میں اسلامی نظام رائج نہیں ہے اور معلم کی کیفیت بھی سابق الذکر کی مثل ہے تو مستحب یہی ہے کہ وہ سوال و التجا سے اپنا دامن داغدار نہ کرے لیکن اگر وہ اُجرت کو مقرر یا طلب کرتا ہے تو اس کا جواز بہر حال موجود ہے۔
➓ اور اگر معلم اخراجات کے حوالہ سے مجبور و محبوس ہے تو اتنی اجرت مقرر کر کے بر وقت اسے ادا کرنا جس سے اس کا گھریلو خرچ بآسانی چل سکے اُمتِ مسلمہ کے افراد و عناصر کا اولین فریضہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1