مزدور کی اجرت، حجامت، فحاشی اور کاہن کی کمائی کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اگر اُجرت معلوم نہ ہو تو مزدور کو حق ہے کہ وہ اس کام کا معاوضہ معروف (معاوضے) کے مطابق وصول کر لے، حجام (سینگی لگانے والے) کی کمائی، فاحشہ کی اُجرت، کاہن کی شرینی، نر کی جفتی کے معاوضے، مؤذن کی اجرت اور آٹا پیسنے والے کے قفیز (ایک معروف ماپنے کا آلہ ) سے ممانعت وارد ہوئی ہے
عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے۔
[الروضة الندية: 284/2]
➊ حدیث نبوی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن كسب الحجام
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجام کی کمائی سے منع فرمایا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2919 ، احمد: 299/2 ، ابو داود: 3421 ، نسائي: 4294 ، ترمذي: 1275]
➋ ایک اور حدیث میں ہے کہ :
كسب الحجام خبيث
”حجام کی کمائی خبیث ہے۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2919 ، كتاب البيوع: باب فى كسب الحجام ، ابو داود: 3421 ، أحمد: 464/3 ، ترمذي: 1196]
لیکن بعض صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجام کو خود اُجرت دی۔
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطیبہ سے سینگی لگوائی اور اسے (بطور اُجرت) غلہ کے دو صاع دیے ۔
[بخاري: 2102 ، كتاب البيوع: باب ذكر الحجام]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی اور حجام کو اس کی اجرت دی۔
ولو كان سحتا لم يعطه
”اور اگر یہ حرام ہوتی تو آپ اسے کچھ نہ دیتے ۔“
[بخاري: 2103 ، كتاب البيوع: باب ذكر الحجام ، مسلم: 1202 ، ابو داود: 3423 ، ابن ماجة: 2162 ، أحمد: 241/1 ، ابن الجارود: 584]
ان روایات میں یوں تطبیق دی گئی ہے۔
حجام کی کمائی مکروہ ہے حرام نہیں کیونکہ لفظِ خبیث طیب کی ضد ہے حلال کی نہیں اور اس کا معنی گھٹیا ، بُرا اور کم تر ہے ، حرام نہیں ۔ قرآن میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے:
وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ [البقرة: 267]
”ان میں سے بُری چیزیں خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا ۔“
لفظِ سحت کو بھی اسی معنی پر محمول کیا جائے گا۔
[نيل الأوطار: 676/3]
کراہت کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ عمل ایسے افعال میں سے ہے جو ضرورت کے وقت ایک مسلمان کی اعانت کرنے کے لیے دوسرے مسلمان پر لازم ہیں لٰہذا اس پر اجرت لینا درست نہیں۔
[سبل السلام: 1232/3]
تعارض کا حل آزاد اور غلام کے مابین فرق کے ساتھ بھی کیا گیا ہے یعنی آزاد کے لیے حجامت کا پیشہ اختیار کرنا مکروہ ہے جبکہ غلام کے لیے مطلقاً جائز ہے۔
[فتح البارى: 221/5]
جمہور علما کا مؤقف یہ ہے کہ حجام کی کمائی حلال ہے ۔
[نيل الأوطار: 672/3]
مهر البغي سے مراد زنا کے عوض زانیہ کو ملنے والی اجرت ہے۔
[سبل السلام: 1046/3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکار و فاحشہ کی اس کمائی کو حرام قرار دیتے ہوئے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
نهي عن مهر البغي
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکار کی اُجرت سے منع فرمایا ۔“
[بخاري: 2282 ، كتاب الإجارة: باب كسب البغي ، مسلم: 2930 ، ترمذي: 1052 ، نسائي: 4219]
حلوان الكاهن سے مراد وہ تحائف و ہدایا اور عطیات ہیں جو کاہن کو کہانت کے عوض حاصل ہوتے ہیں ۔
[سبل السلام: 1047/3]
چونکہ کہانت حرام ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا معاوضہ بھی حرام قرار دیا ہے ۔
نهى عن حلوان الكاهن
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہن کی شرینی سے منع فرمایا ہے ۔“
[أيضا]
عسب الفحل فحل نر کو کہتے ہیں گھوڑا ہو یا اونٹ یا بکرا ، اور عسب نر کی جفتی ، اس سے خارج ہونے والے پانی اور اس کی نسل و اولاد کے لیے بولا جاتا ہے۔
[سبل السلام: 1060/3 ، المعجم الوسيط: ص/ 600]
چونکہ اس کی ضرورت عام پیش آتی تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عوض اُجرت لینے سے منع فرما دیا جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ :
نهي النبى صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کی جفتی کے معاوضے سے منع فرمایا ہے ۔“
[بخاري: 2284 ، كتاب الإجارة: باب عسب الفحل ، ترمذي: 1194 ، نسائي: 4592]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن أبی العاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ :
واتخذ مؤذنا لا ياخذ على أذانه أجرا
”ایسے شخص کو مؤذن مقرر کرو جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 585 ، كتاب الأذان: باب السنة فى الأذان ، ابن ماجة: 714 ، أحمد: 217/4 ، حاكم: 199/1 ، بيهقي: 429/1]
قفيز الطحان سے مراد غلے کے مجہول ڈھیر (جس کا وزن نہ کیا گیا ہو) کے بارے میں پیسنے والے کو یوں کہنا ہے کہ :
اسے پیس دو اور معاوضہ میں اتنی قیمت اور ایک قفیز اسی غلے سے لے لو۔
[فيض القدير: 434/6 ، نيل الأوطار: 685/3 ، تلخيص الحبير: 133/3]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قفیز الطحان سے منع فرمایا ۔“
[صحيح: إرواء الغلل: 1476 ، تلخيص الحبير: 60/3 ، دارقطني: 195 ، بيهقي: 339/5]
ممانعت کا سبب یہ اندیشہ ہے کہ کہیں مجہول غلے کا ڈھیر وزن میں زیادہ اور اس کا معاوضہ کم ، یا معاوضہ زیادہ اور وزن کم نہ ہو ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1