حق شفعہ: حدود، اطلاع، اور شفعہ کے باقی رہنے سے متعلق احکام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جب تقسیم ہو جائے تو شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا اور شریک کے لیے اپنے ساتھی (شراکت دار ) کو اطلاع دیے بغیر کوئی چیز فروخت کرنا جائز نہیں
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
”جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ ہو جائیں تو پھر حق شفعہ نہیں ہے۔“
[بخاري: 2257 ، كتاب الشفعة: باب الشفعة فيما لم يقسم ، مسلم: 1608 ، ابو داود: 3514 ، ترمذي: 1370 ، ابن ماجة: 2499 ، شرح معاني الآثار: 122/4]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قسمت الدار وحدت فلا شفعة فيها
”جب گھر تقسیم کر دیا جائے اور اس کی حد بندی کر دی جائے تو اس میں کوئی حق شفعہ نہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 300 ، صحيح ابن ماجة: 2497 ، ابو داود: 3515]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”شفعہ ہر مشترک چیز میں ہے جسے تقسیم نہ کیا گیا ہو مکان ہو یا زمین اور :
لا يحل له أن يبيع حتى يوذن شريكه فإن شاء أخذ وإن شاء ترك فإذا باع ولم يوذنه فهو أحق به
”اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شریک کو اطلاع دیے بغیر (ان اشیاء کو ) فروخت کر دے اگر وہ (شریک) چاہے تو اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔ لیکن جب اس نے اطلاع دیے بغیر فروخت کر دیا تو اس کا شریک اس چیز کا زیادہ حقدار ہے ۔“
[مسلم: 1608 ، كتاب المساقاة: باب الشفعة ، ابو داود: 3513 ، نسائي: 320/7 ، أحمد: 316/3]
امام قرطبیؒ اپنے بعض مشائخ سے بیان کرتے ہیں (اس حدیث سے ثابت ہوا) کہ شریک پر واجب ہے کہ جب وہ (کچھ) فروخت کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے شریک کو اطلاع دے۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ حدیث یہ تقاضا کرتی ہے کہ اپنے ساتھی کے سامنے پیش کرنے سے پہلے شریک پر حرام ہے کہ وہ (مشترکہ چیز ) فروخت کر دے۔
[كما فى نيل الأوطار: 40/3]
◈ جب شریک کو مطلع کر دیا جائے اور بعد ازاں وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے سے سودا کرے تو کیا شریک کے لیے شفعہ کا حق باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) اسے حق شفعہ حاصل ہو گا (کیونکہ پہلے اطلاع دینا حق شفعہ کے لیے مانع نہیں ہے)۔
(ثوریؒ ، ابو عبیدؒ ) اطلاع دینے کے بعد شفعہ کا استحقاق ساقط ہو جاتا ہے۔
(راجح) دوسرا موقف أقرب الی الحدیث ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ”اگر وہ چاہے تو اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔“ (تو جب اطلاع دینے پر شریک نے اسے نہیں رکھا پھر حق شفعہ کس چیز کا باقی رہا؟ )۔
[نيل الأوطار: 40/3 ، سبل السلام: 1217/3]
اور یہ (حقِ شفعہ ) کچھ تاخیر ہو جانے سے باطل نہیں ہوتا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
”ہمسایہ (شریک) اپنے ہمسائے کا شفعہ میں زیادہ حقدار ہے ، حق شفعہ کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1540 ، 378/5 ، ابو داود: 3518 ، كتاب البيوع: باب فى الشفعة ، ترمذى: 1369 ، أحمد: 303/3 ، ابن ماجة: 2494]
نبی صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان
ينتظر بها وإن كان غائبا
میں یہ دلیل موجود ہے کہ غیر حاضر (غائب) مشخص کا حق شفعہ باطل نہیں ہوتا خواہ اسے کچھ تاخیر ہو جائے ۔
[نيل الأوطار: 43/3 ، سبل السلام: 1219/3]
(ابن رشدؒ) اگر (شریک) غائب ہو تو علم کا اجماع ہے کہ غائب اپنے شفعہ کے حق پر باقی رہے گا جب تک کہ اسے شریک کی بیع کا علم نہ ہو جائے ۔
[بداية المجتهد: 464/2]
(نواب صدیق حسن خانؒ) حق بات یہی ہے کہ تاخیر ہو جانے سے حق شفعہ باطل نہیں ہوتا ۔
[الروضة الندية: 280/2]
ایک ضعیف روایت
جس روایت میں یہ لفظ ہیں:
لا شفعة لغائب ولا لصغير والشفعة كحل العقال
”غائب اور بچے کے لیے حق شفعہ نہیں ہے اور شفعہ رسی کھولنے کی طرح ہے۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 542 ، إرواء الغليل: 1542 ، الضعيفة: 4803 ، اس كي سند ميں محمد بن عبد الرحمٰن سلماني راوي انتہائي ضعيف هے۔ الكامل لابن عدي: 2187/6 ، تهذيب التهذيب: 261/9 ، حافظ ابن حجرؒ نے اس كي سند كو بهت زياده ضعيف كها هے۔ تلخيص الحبير: 125/3 ، امام ابن عديؒ نے اسے ضعيف كها هے ۔ الكامل: 177/6 ، امام ابن حبانؒ نے كها هے اس كي كوئي اصل نهيں۔ تلخيص الحبير: 56/3 ، امام ابوزرعهؒ نے اسے منكر كها هے۔ العلل: 479/1 ، امام بيهقيؒ ميں نے كها هے كه يه روايت ثابت نهيں هے۔ تلخيص الحبير: 56/3]
شفعہ کی متفقہ شرط
اس پر اتفاق ہے کہ شراکت کا بیع پر مقدم ہونا شفعہ کی شرائط میں سے ہے۔
[بداية المجتهد: 463/2]
اگر شریک اپنا حق خود ہی باطل کر دے
شفعہ کرنے والا اگر اپنا حق خود ہی باطل کر دے تو باطل ہو جائے گا۔
[السيل الجرار: 174/3]
اگر شریک فوت ہو جائے
تو حقِ شفعہ شفعہ کرنے والے کی موت سے بھی ساقط نہیں ہو گا کیونکہ یہ ایسا حق ہے جس کا وارث بنا جا سکتا ہے جیسا کہ بقیہ تمام حقوق کا وارث بنا جا سکتا ہے۔
[السيل الجرار: 177/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1