قرض وغیرہ کی وصولی میں نرم برتاؤ
اگر کوئی تنگ دست ہو تو اس سے قرض وغیرہ وصول کرنے میں نرمی سے پیش آنا چاہیے اور اگر اسے رقم معاف کر دی جائے تو یہ اس سے بھی بہتر ہے۔
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [البقرة: 280]
”اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے اور صدقہ کر دو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تمہیں علم ہو۔“
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
”فرشتوں نے تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح قبض کی تو اس سے کہا کہ کیا تو نے کوئی خیر کا کام کیا ہے؟ اس نے کہا:
كنت آمر فتيانى أن ينظروا ويتجاوزوا عن الموسر قال فتجاوزوا عنه
”میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں (جو ان کے مقروض ہوں ) کو مہلت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر فرشتوں نے بھی اس سے در گزر کیا اور سختی نہ کی ۔“
[بخاري: 2077 ، كتاب البيوع: باب من أنظر موسرا]
➌ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ :
من أنظر معسرا أو وضع عنه أظله الله فى ظله
”جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس سے قرض معاف ہی کر دیا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں سایہ عطا فرمائیں گے ۔“
[صحيح: مسند احمد محقق: 15521 ، ابن ابي شيبه: 11/7 ، عبد بن حميد: 378 ، دارمي: 261/2 ، طبراني كبير: 372/19 ، مسند قضاعي: 460 ، بيهقى فى الشعب: 11248 ، شرح السنة: 2142 ، حاكم: 28/2]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أنظر معسرا أو وضع عنه أظله الله فى ظل عرشه يوم القيامة
”جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس سے قرض معاف ہی کر دیا تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں سایہ عطا فرمائیں گے ۔“
[صحيح: مسند احمد محقق: 8711 ، احمد: 359/2 ، شيخ شعيب ارنؤوط نے اس كي سند كو مسلم كي شرط پر صحيح كها هے۔]
➎ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أنظر معسرا فله بكل يوم مثله صدقة
”جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی اسے اس کی (رقم کی ) مثل صدقہ کا اجر ملے گا۔“
[صحيح: مسند احمد محقق: 23046 ، احمد: 360/5 ، حاكم: 29/2 ، ابو يعلى فى مسنده الكبير: 166/1 ، جامع المسانيد: 128/1 ، شرح مشكل الآثار: 3810 ، ابو نعيم فى اخبار اصفهان: 286/2 ، بيهقي: 357/5 ، وفى شعب الايمان: 11261 ، ابن عساكر فی تاریخ دمشق: 778/14 ، ابن عدی فی الکامل: 1855/5]