بیع سلم: تعریف، شرائط، اور فقہی احکام کا جامع خلاصہ

وہ یہ ہے کہ معالمہ طے پانے کی مجلس میں راس المال اس شرط پر ادھار دے کہ جس معلوم چیز پر معین مدت کے لیے دونوں رضامند ہوئے ہیں وہ اسے (اس کے مطابق ) ادائیگی کر دے گا
سَلَم لفظا ومعنا سلف ہی ہے (سلف اہل عراق کی جبکہ مسلم اہل حجاز کی لغت ہے ) اور سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں ”قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے“ یعنی سونا چاندی یا مروجہ سکہ کے عوض پیشگی قیمت دے کر ایک معلوم و متعین مدت تک چیز لینے کا سودا کرنا بیع سلم ہے۔ جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے وہ ”رأس المال“ جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے ”مسلم فيه“ قیمت ادا کرنے والے کو ”رب السلم“ اور جسے وہ چیز فروخت کی جا رہی ہے اسے ”مسلم إليه“ کہتے ہیں۔
[أنيس الفقهاء: ص/ 219 – 220 ، مصباح المنير: 473/1 ، النهاية: 396/2 ، فتح البارى: 182/5 ، نيل الأوطار: 610/3]
اس بیع کی مشروعیت پر علما کا اجماع ہے۔ فی الحقیقت یہ بیع معدوم ہونے کی وجہ سے ناجائز بھی لیکن اقتصادی مصالح کے پیش نظر لوگوں کے لیے نرمی اور ان پر آسانی کرتے ہوئے اسے مستثنی کر دیا گیا ہے۔
[المغنى: 275/4 ، بداية المجتهد: 199/2 ، مغني المحتاج: 102/2 ، فتح القدير: 323/5 ، المبسوط: 124/12]
بيع سلم کی شرائط
(سعید بن مسیّبؒ) فرماتے ہیں کہ اس کی بعض شروط میں تو اختلاف ہے لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ اس میں اُن تمام شرائط کو ملحوظ رکھا جائے گا جن کا لحاظ ربیع میں رکھا جاتا ہے۔
[مصنف ابن ابي شيبة: 309/4 ، كتاب البيوع: باب فى السلف فى الشيئ الذى ليس فى أيدى الناس]
رأس المال کی شرائط:
➊ اس کی جنس معلوم ہو ۔
➋ اس کی مقدار معلوم ہو۔
➌ اسے مجلسِ عقد میں ادا کر دیا جائے ۔
مسلم فیہ کی شرائط:
➊ وہ ضمانت و ذمہ داری میں ہو۔
➋ اس کا ایسا وصف بیان کیا جائے جس سے اس کی مقدار اور ممتاز اوصاف کا علم ہو جائے تاکہ دھوکہ اور تنازعہ کا خاتمہ ہو سکے۔
➌ اس کی مدت معلوم ہو ۔
[فقه السنة: 250/3]
کیا اجل (مدت کا تعین ) شرط ہے؟
(جمہور) انہوں نے معین مدت کے شرط ہونے کا اعتبار کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ فی الحال (یعنی دونوں طرف سے بیک وقت ادائیگی ) بیع سلم جائز نہیں ۔
(شافعیہ) جب تاخیر سے (جس میں دھوکہ بھی ہے ) جائز ہے تو اس وقت ادائیگی بالا ولٰی جائز ہے اور حدیث میں اجل کا ذکر اس لیے نہیں ہے کہ صرف یہی شرط ہے (یا اس کا موجود ہونا ہر حال میں ضروری ہے) بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ اجل سے متعلق ہو تو اس میں وہ معلوم ہونی چاہیے۔
(راجح) امام شافعیؒ کا مذہب ہی زیادہ برحق ہے۔
(شوکانیؒ ) حق بات وہی ہے جسے شافعیہ نے اختیار کیا ہے کیونکہ کسی بھی حکم کو بغیر دلیل کے عبادت بنا لینا درست نہیں ۔
[نيل الأوطار: 610/3]
(ابن حجرؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[فتح البارى: 82/5]
مسلم فیہ کا بیع کے وقت مسلم الیہ کے پاس ہونا:
یہ شرط نہیں ہے جیسا کہ عبد الرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے دریافت کیا:
اكان لهم زرع؟ قالا ما كنا نسألهم عن ذلك
”كيا (بیع سلم کے وقت ) ان کے پاس کھیتی موجود ہوتی تھی؟ تو ان دونوں نے کہا ہم ان سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے تھے۔“
[بخاري: 2255 ، كتاب السلم: باب السلم إلى أجل معلوم]
اس مسئلے میں علما نے اختلاف کیا ہے۔
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ) بیع سلم کے وقت جنس نہ بھی ہو تب بھی بیع درست ہو گی تاہم اتنا ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا دستیاب ہونا ممکن ہو۔
(ابو حنیفہؒ) بیع سلم کے معاہدہ کے آغاز سے لے کر مدت معاہدہ کے اختتام تک وہ چیز دستیاب رہے۔ اس دوران کسی موقع پر بھی اس کا فقدان نہ ہو اور ملنا دشوار و محال نہ ہو۔
[الأم: 124/3 ، الحاوى: 391/5 ، المبسوط: 125/12 ، الهداية: 72/3 ، المغنى: 406/6]
(راجح) جمہور کا مؤقف راجح ہے کیونکہ گذشتہ حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔
تمام اجناس میں بیع سلم جائز ہے
بیع سلم ، پھلوں ، باغات اور گندم کے علاوہ ہر چیز میں جائز ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
من أسلف فى شيئ ففى كيل ووزن معلوم إلى أجل معلوم
”جو شخص کسی بھی چیز میں بیع سلم کرنا چاہے وہ مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے ٹھہرا کر کرے ۔“
[بخاري: 2240 ، كتاب السلم: باب السلم فى كيل معلوم]
خلاصہ کلام:
یہ ہے کہ بیع سلم کی شرائط ، مسلم فیہ کی جنس کا معین ہونا ، اس کا ماپ یا وزن معلوم ہونا اور اس کی مدت معلوم ہونا محض یہی تین شرائط ہیں ان کے علاوہ کسی شرط پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ (وہ صرف اس بات پر قیاس کرتے ہوئے معین کی گئی ہیں کہ ان شرائط کا سبب تنازعہ وغرر کا خاتمہ کرنا ہے تو جن شرائط سے ایسا لازم ہے ان پر عمل بھی بہتر و اولٰی ہے ) ۔
[الروضة الندية: 261/2 ، حجة البالغة: 113/2]
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور اہل مدینہ پھلوں میں ایک سال اور دو سال کی قیمت پیشگی ادا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أسلف فى ثمر فليسلف فى كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم
”جو شخص پھلوں کی پیشگی (قیمت ) دے تو اسے چاہیے کہ ماپ ، تول کر مقررہ مدت کے لیے دے ۔“
اور صحیح بخاری میں یہ لفظ ہیں:
من أسلف فى شيئ
”جو شخص کسی بھی چیز میں پیشگی دے۔“
[بخارى: 2240 – 2241 ، كتاب السلم: باب السلم فى وزن معلوم ، مسلم: 1604 ، ابو داود: 3463 ، ترمذي: 1311 ، نسائي: 4616 ، ابن ماجه: 2280 ، دارمي: 260/2 ، بيهقى: 18/6 ، احمد: 217/1 ، دار قطني: 4/3 ، شرح السنة: 173/8]
➋ حضرت عبد الرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوات میں شرکت کر کے ) غنیمت کا حصہ لیتے تھے اور ملک شام کے نبطی جاٹوں میں سے کچھ جاٹ ہمارے پاس آتے تھے ۔ ہم ان کو گندم ، جو اور منقیٰ (اور ایک روایت میں زیتون بھی ہے) کی پیشگی دے کر ایک مقررہ مدت تک بیع سلم کرتے تھے۔ دریافت کیا گیا کہ کیا وہ خود کھیتی باڑی کرتے تھے تو دونوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان سے یہ بھی دریافت نہیں کیا تھا۔“
[بخارى: 2242 – 2243 أيضا ، ابو داود: 3463 ، ابن ماجة: 2282 ، أحمد: 217/1 ، حاكم: 45/2 ، بيهقي: 20/6]
وہ وہی چیز لے گا جس پر ان کا معاملہ طے پایا ہے یا وہ اپنی اصل رقم واپس لے لے گا اور قبضے میں لینے سے پہلے وہ اس میں تصرف نہیں کرے گا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أسلف شيئا فلا يشرط على صاحبه غير قضائه
”جو شخص بیع سلم کرے وہ اپنے ساتھی پر اسے ادا کرنے کے سوا کسی اور چیز کی شرط نہ لگائے ۔“
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
من أسلف فى شيء فلا ياخذ إلا ما أسلف فيه أو رأس ماله
”جو شخص بيع سلم کرے وہ صرف وہی چیز لے جس میں اس نے بیع سلم کی ہے یا پھر اپنا اصل مال واپس لے لے ۔“
[دارقطني: 45/3]
(مالکؒ) اگر سودے کے بعد مشتری بائع سے مطلوبہ چیز حاصل نہ کر سکے اور اس نے اس سے اقالہ كر ليا:
فإنه لا ينبغي له أن ياخذ إلا ورقه أو ذهبه أو الثمن الذى دفع إليه بعينه
”تو اب اس کے لیے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے مگر اپنا سونا یا چاندی یا بعینہ اپنی وہی قیمت جو اس کو دی تھی (وہ لے سکتا ہے ) ۔“
[المسوى على مؤطا: 50/2]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أسلف فى شيئ فلا يصرفه إلى غيره قبل أن يقبضه
”جو شخص کسی چیز کی خرید بصورت بیع سلم کرتا ہے تو جب تک اس چیز پر مکمل قبضہ نہ کر لے اس میں تصرف نہ کرے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 499 ، إرواء الغليل: 1375 ، ابن ماجة: 2283 ، ابو داود: 3468 ، دارقطني: 45/3 ، بيهقى: 30/6]
اگرچہ مذکورہ روایت میں ضعف ہے لیکن اس مسئلہ میں وہ تمام صحیح احادیث شاہد ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ قبضے سے پہلے سودا فروخت کرنا جائز نہیں۔
جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ :
إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه
”جب تم کوئی غلہ خریدو تو اسے مکمل وصول کر لینے سے پہلے فروخت نہ کرو۔“
[مسلم: 1529]
(شوکانیؒ) اس (پہلی ) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلم فیہ کو قبضے میں لینے سے پہلے کسی اور چیز کی قیمت بنا دینا (یعنی فروخت کر دینا) جائز نہیں۔ کیونکہ جب تک کسی چیز پر مکمل قبضہ نہ ہو جائے اس وقت تک اسے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
[نيل الأوطار: 612/3]
فلا يصرفه
میں ضمیر کے مرجع میں اختلاف کی وجہ سے اس مسئلے میں بھی اختلاف ہو گیا ہے۔
(مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) انہوں نے ضمیر کا مرجع رأس المال بنایا ہے اور کہا ہے کہ راس المال میں تصرف جائز نہیں حتی کہ دوسرا شخص اپنا مقررہ مال وصول نہ کر لے۔
(شافعیؒ ، زفرؒ) رأس المال میں تصرف جائز ہے کیونکہ یہ تو قرض کی طرح اس انسان کے ذمے ہے اور وہ اس میں تصرف بھی کر سکتا ہے۔
[نيل الأوطار: 613/3]
(راجح) امام شافعیؒ کا موقف راجح ہے۔
مسلم فیہ میں حوالہ
احناف کے نزدیک مسلم فیہ میں حوالہ جائز ہے جبکہ جمہور کے نزدیک جائز نہیں ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 3634/5 ، الشرح الكبير: 195/3 ، مغني المحتاج: 103/2 ، المغني: 302/4]
(مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ) انہوں نے کپڑوں میں بھی بیع سلم کو جائز قرار دیا ہے۔
[القوانين الفقهية: ص/ 269 ، مغني المحتاج: 107/2]
(ابن منذرؒ) انہوں نے اسی پر اجماع نقل کیا ہے۔
[المغنى: 276/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1