حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام نیک لوگوں کے امام ہیں
خطیب نے اپنی تاریخ میں اور حاکم نے المستدرک میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علی نیک لوگوں کے امام اور فاجروں کے قاتل ہیں۔ جو ان کی مدد کرے اس کی مدد کی جائے گی۔ اور جو انہیں رسوا کرے، اسے رسوا کیا جائے گا۔ [المستدرك للحاكم ج 1، ص: 169۔ رقم: 4644۔ كنز العمال: 602/11۔ الضعيفة: 532/1۔ اخرجه الخطيب فى التاريخ: 377/2۔ 219/4۔ و ابن جوزي فى الموضوعات: 353/1۔ وذكره السيوطي فى اللالي: 171/1]
حاکم نے اسے ”المستدرک“ میں روایت کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
لیکن حافظ ذہبی اس کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ «قلت بل والله موضوع و احمد كذاب فما ا جهلك على سعت معرفتك»
”میں کہتا ہوں بلکہ اللہ کی قسم یہ موضوع ہے، اور احمد کذاب ہے حاکم نے اپنی اس وسعت علمی کے باوجود کتنی بڑی جہالت کا ثبوت دیا ہے۔“
احمد بن عبد اللہ بن یزید الہشیمی:
یہ شخص سامرہ میں رہتا تھا۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ شخص احادیث وضع کیا کرتا تھا۔ پھر ابن عدی نے اس کی موضوع روایات ذکر کیں۔ اس کا انتقال 371ھ میں ہوا۔ [ميزان الاعتدال ج 1، ص: 249۔ الضعفاء والمتروكين: 79/1]
عبد الرزاق بن ہمام:
یہ تمام صحاح ستہ کا راوی ہے۔ لیکن شیعہ ہے اور آخر عمر میں پاگل ہو گیا تھا، شیعہ ہونے کے ناتے وہ روایات قابل قبول نہیں۔ جس سے تشیع کی تائید ہوتی ہو۔ ہم اس کا تفصیل حال پہلے پیش کر چکے ہیں۔
عبد اللہ بن عثمان بن خثیم:
اس کی سند کا ایک اور راوی عبد اللہ بن عثمان بن خثیم المکی ہے۔
یحیی بن معین کہتے ہیں اس کی حدیث حجت نہیں۔ عبد الرحمن اس کی روایت نہ لیتے، اور نسائی کہتے ہیں اس کی حدیث کمزور ہے۔ [ميزان الاعتدال ج 2، ص: 402]
تعجب تو حاکم پر ہے کہ وہ موضوع روایت کو بھی صحیح قرار دیتے ہیں۔ اس لیے محدثین کا قول ہے۔ «لا تغتر بتحسين الترمذي و لا بصحيح الحاكم» ”جس حدیث کو ترمذی حسن کہیں اور حاکم جس حدیث کو صحیح کہیں ہرگز دھوکہ نہ کھانا۔“
اس روایت کا ایک راوی شیعہ ہے ایک ضعیف اور ایک وضاع الحدیث ہے۔ پھر بھی حاکم اسے صحیح کہہ رہے ہیں۔ اور حاکم نے اس قسم کی بے پناہ غلطیاں کی ہیں۔ حتی کہ محمد بن جعفر کتانی نے تقریر کیا کہ مستدرک کا چوتھائی حصہ منکرات اور واہی روایات سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں سو سے زیادہ روایات موضوع ہیں۔ [الرسالة المستطرفه: 19]