جنگ صفین میں بدری صحابہ کی شرکت
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

جنگ صفین میں ستر بدری موجود تھے
ابن ابی لیلیٰ کا بیان ہے کہ جنگ صفین میں ستر بدری شریک ہوئے۔ [ميزان الاعتدال: 170/1]

ابراہیم بن عثمان:
اس کا راوی ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ العسبی الکوفی ہے۔ یہ واسط کا قاضی تھا۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ کا دادا تھا۔ اس نے یہ روایت حکم کے واسطہ سے ابن ابی لیلی سے نقل کی ہے۔ [المغني: 20/1۔ الضعفاء والمتروكين: 19/1۔ الضعفاء الكبير: 59/1۔ تقريب: 39/1 – الجرح والتعديل: 115/2]
شیبہ کہتے ہیں اللہ کی قسم، یہ ابراہیم بن عثمان جھوٹا ہے، میں نے خود حکم سے اس موضوع پر گفتگو کی تھی، ہم نے تو اہل بدر میں سے خزیمہ کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جو جنگ صفین میں موجود ہو۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ امام ذہبی نے بظاہر تو شعبہ کا رد کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو تین افراد کی شرکت سے ستر کی شرکت ثابت نہیں ہوتی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جنگ صفین حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین ہوئی۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شرکت تو ایک جزو لانیفک ہے۔ بلکہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جنگ صفین سے علیحدہ کر دیا جائے تو پھر تو یہ ثابت ہوگا کہ چند باغی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شرکت تو لازمی تھی۔ رہی عمار کی شرکت وہ بھی مختلف فیہ ہے۔ اور بقول شعبہ و حکم کے علاوہ صرف حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں موجود تھے جن کا شمار اہل بدر میں ہوتا تھا۔ لیکن اس میں بھی اختلاف ہے۔ یہ خزیمہ جو جنگ صفین میں شریک تھے وہ واقعتاً بدری تھے یا انہیں صرف اس لیے بدری کہا گیا ہے کہ انہوں نے مقام بدر میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ اس لحاظ سے انہیں بدری کہتے ہیں۔ بات خواہ کچھ بھی ہو لیکن جنگ صفین میں ستر بدری ہرگز شریک نہ تھے، کھینچ تان کر آپ انہیں تین تک لا سکتے ہیں۔ اور شعبہ امام مالک کے ہم عصر ہیں اور تشیع میں بھی مبتلا ہیں۔ جب ان کے زمانہ تک جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک بدری موجود تھا تو شعبہ کے بعد اور کہاں سے اور کیسے پیدا ہو گئے۔ امام محمد بن سیریں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں 21ھ میں پیدا ہوئے اور جن کا انتقال 110ھ میں ہے۔ اور جن کے روبرو یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ وہ فرماتے ہیں۔
«هاجت النسة واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرات الوف فلم يلحضرها منهم مائة بل لم يبلغوا ثلاثين»
”سن اسی طرح آگے بڑھتا رہا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تیس ہزار اور نوے ہزار کے درمیان تھے۔ اور ان جنگوں میں سو صحابہ بھی شریک نہیں ہوئے بلکہ شریک ہونے والوں کی تعداد تیس تک بھی نہیں پہنچی۔“
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کی سند نقل کر کے فرماتے ہیں:
«هذا الإسناد اصح اسناد على وجه الارض»
”یہ سند روئے زمین پر صحیح سند ہے۔“ [منهاج السنة: 86/3]
اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ صحابہ کی تعداد اس وقت کسی صورت میں تیس ہزار سے کم نہ تھی۔ بلکہ وہ تقریباً نوے ہزار کے قریب تھے۔ تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ان تمام جنگوں میں اصل تقابل ان لوگوں کا تھا جو صحابی نہ تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو بمشکل چند ہی شریک ہوئے اور ان کے نام کو اتنا اچھالا گیا ہے کہ پوری تاریخ اس میں دب کر رہ گئی۔ اور صحابہ کرام نے علیحدہ بیٹھ کر ان سب چیزوں کا نظارہ کیا۔ صرف اس تخیل کے تحت کہ شاید کہ کسی وقت یہ فتیہ ختم ہو اور امت ایک جگہ متحد ہو۔ اور جب انہوں نے یہ دیکھا کہ تمام امت ایک امام پر جمع ہو گئی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام لیا۔ تو تمام صحابہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اس سال کا نام ان کے اتفاق پر عام الجماعت (جماعت کا سال) قرار پایا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1