کافر کے ساتھ صلہِ رحمتی تعلق قائم کرنے کا حکم
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

کافر کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم

صلہ رحمی موالات نہیں ہوتی بلکہ موالات ایک چیز ہے اور صلہ رحمی دوسری چیز، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی سورت میں صلہ رحمی کرنے اور دوست بنانے سے منع کرنے کا اکٹھا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ» [الممتحنة: 1]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو۔“
اور اسی سورت میں یہ بھی ذکر کیا ہے۔
«لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ» [الممتحنة: 8]
’’ اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنھوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو۔“
لہٰذا صلہ رحمی دوستی سے علاحدہ امر ہے، اس بنا پر صلہ رحمی کرنا واجب ہے۔ خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں، لیکن ان کے کفر پر ان کی مدد، تائید اور موالات سے دور رہتے ہوئے۔ اسی طرح انہیں اپنے گھر میں بلانا بھی جائز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو دعوت اسلام پیش کرنے اور ان کو نصیحت کرنے اور ان کی راہنمائی پر بھی بھرپور توجہ دینی چاہیے، شاید اللہ تعالیٰ اس کے سبب انہیں ہدایت نصیب کر دے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 3/21]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1