عدت گزارنے والی بیوہ عورت پر لازم ہے کہ وہ زیب و زینت چھوڑ دے
➊ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ منائے مگر صرف اپنے خاوند پر چار ماہ اور دس دن (تک سوگ منائے ) ۔“
[بخاري: 3554 ، كتاب الطلاق: باب تحد المتوفى عنها زوجها أربعة أشهر وعشرا ، مسلم: 938 ، ابو داود: 2302 ، نسائي: 202/6 ، ابن ماجة: 2087 ، أحمد: 408/6]
➋ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد اس کی آنکھ میں تکلیف ہوئی تو اس کے گھر والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرمہ لگانے کی اجازت طلب کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سرمہ مت لگاؤ (زمانہ جاہلیت میں) تمہیں بدترین کپڑے میں وقت گزارنا پڑتا تھا یا (راوی کو شک ہے کہ یہ فرمایا کہ ) بدترین گھر میں وقت گزارنا پڑتا تھا۔ جب اس طرح ایک سال پورا ہو جاتا تو اس کے پاس سے کتا گزرتا اور وہ اس پر مینگنی پھینکتی (تب عدت سے باہر آتی ) لٰہذا تم سرمہ نہ لگاو جب تک کہ چار ماہ دس دن نہ گزر جائیں ۔
[بخاري: 5338 ، كتاب الطلاق: باب الكحل للحادة ، مسلم: 1486 ، مؤطا: 596/2 ، ابو داود: 2299 ، ترمذي: 1195]
➌ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوائے خاوند کے اس پر چار ماہ دس دن سوگ منائے:
ولا تلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب ولا تكتحل ولا تمس طبيبا إلا إذا طهرت نبذة من قسط أو أظفار
”زمانہ سوگ میں رنگ دار لباس نہ پہنے ، لیکن رنگے ہوئے سوت کا کپڑا پہن سکتی ہے ، سرمہ نہ لگائے ، خوشبو استعمال نہ کرے مگر جب ایام حیض سے پاک ہو تب تھوڑی سی عود ہندی (ایک خوشبو دار لکڑی ) یا اظفار (مشک ) استعمال کر سکتی ہے۔“
سنن ابی داود اور سنن نسائی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
ولا تـــخـتضب
”مہندی بھی نہ لگائے ۔“
اور سنن نسائی میں یہ لفظ بھی ہیں:
ولا تمتشط
”اور کنگھی بھی نہ کرے ۔“
[بخاري: 5341 ، كتاب الطلاق: باب القسط للحادة عند الطهر ، مسلم: 938 ، ابو داود: 2302 ، نسائي: 3536 ، 3534]
معلوم ہوا کہ عورت کے لیے حرام ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے خواہ اس کے والدین ہی کیوں نہ فوت ہو جائیں البتہ اپنے خاوند کا چار ماہ دس دن سوگ منانا اس پر لازم ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ غیر حاملہ کی بات ہے کیونکہ اگر حاملہ ہو گی تو وضع حمل تک سوگ منائے گی۔
◈ علاوہ ازیں حدیث میں موجود لفظ میت سے معلوم ہوا کہ مطلقہ پر سوگ نہیں ہے لٰہذا اگر طلاق رجعی ہو تو بالاتفاق یہی مسئلہ ہے اور اگر طلاق بائنہ (یعنی تیسری ) ہو تو اس میں اختلاف ہے۔
(جمہور، شافعیؒ ، مالکؒ) مطلقہ بائنہ عورت پر سوگ نہیں ہے۔
(ابو حنیفہؒ) مطلقہ بائنہ پر سوگ منانا واجب ہے۔
[الأم: 230/5 ، المبسوط: 58/6 ، نيل الأوطار: 395/4]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے کیونکہ مطلقہ پر سوگ کے وجوب کی کوئی دلیل موجود نہیں اور براءۃِ اصلیہ کا قاعدہ بھی اس کا مؤید ہے ۔
◈ گذشتہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوہ سرمہ بھی ہرگز نہیں لگائے گی۔
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابن حزمؒ ) وہ سرمہ نہیں لگائے گی خواہ اس کی آنکھ ضائع ہو جائے نہ دن میں نہ رات میں ۔
[المحلى: 276/10]
تاہم بعض اہل علم نے اثمد سرمے کو بطور دوا استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
(جمہور، مالکؒ، احمدؒ، ابو حنیفہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 393/4 ، سبل السلام: 1499/2]
ان کی دلیل حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی وہ روایت ہے جس میں ہے کہ کسی عورت نے فتوی پوچھا تو انہوں نے کہا ”رات کو (سرمہ) لگا لو اور دن کو دھو ڈالو۔“ لیکن وہ روایت ضعیف ہے۔
[ضعيف ابو داود: 502 ، ضعيف نسائي: 230 ، ابو داود: 2305 ، كتاب الطلاق: باب فيما تجتنبه المعتدة فى عدتها]
لٰہذا ثابت ہوا کہ عورت کو ایام سوگ میں بہر صورت سرمہ لگانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔