خلع پر میاں بیوی دونوں کی رضا مندی ضروری ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

خلع پر میاں بیوی دونوں کی رضا مندی ضروری ہے یا پھر حاکم ان دونوں کے درمیان علیحدگی کر دے گا
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [النساء: 128]
”ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں صلح کر لیں اور صلح ہی بہتر ہے۔ “
➊ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کے درمیان جدائی کرائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا:
اقبل الحديقة وطلقها……
”باغ قبول کرو اور اسے طلاق دے دو ۔“
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا [النساء: 35]
”اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان باہمی اَن بن کا اندیشہ ہو تو ایک منصف و فیصل مرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو۔ اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ دونوں میں ملاپ کرا دے گا۔“
اور اگر صلح نہ ہو سکے تو جمہور علما کے نزدیک ان منصفوں کو ان دونوں کے درمیان تفریق کا اختیار ہے۔
[فتح القدير: 363/1 ، تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 368/6 ، تفسير الرازي: 75/10]
اور یہ فسخ نکاح ہے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ [البقرة: 229]
اس کے بعد افتداء (فدیہ دے کر خلع لینے) کا ذکر کیا پھر فرمایا:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ [البقرة: 230]
لٰہذا اگر افتدا طلاق ہوتا تو وہ طلاق جس کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے صرف اسی صورت میں حلال ہو سکتی ہے جبکہ وہ کسی اور سے شادی کر لے ، چوتھی طلاق ہو جائے گی ۔ سو معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے۔
➋ حضرت حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ کے رسول ! ہر وہ چیز جو اس نے مجھے دی تھی وہ میرے پاس ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت سے کہا: ”اس سے لے لو ۔“ پھر اس نے (وہ مال) لے ليا وجلست فى أهلها ”اور وہ عورت اپنے اہل و عیال میں جا بیٹھی ۔“
[موطا: 564/2]
معلوم ہوا کہ علیحدگی کے بعد حضرت حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے میکے چلی گئیں لٰہذا اگر خلع طلاق ہوتا تو وہ شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارتیں۔ جب ایسا نہیں کیا تو ثابت ہوا کہ خلع فسخ ہے۔
➌ خلع کی عدت ایک حیض ہے (جیسا کہ آئندہ ذکر آئے گا ) جبکہ طلاق کی عدت تین حیض ہے۔ لٰہذا یہ فسخ ہے۔
➍ خلع میں شوہر بیوی سے اپنا دیا ہوا مال لے سکتا ہے جبکہ طلاق میں نہیں لے سکتا۔
➎ خلع میں مرد کو رجوع کا حق نہیں ہوتا جبکہ طلاق میں رجوع کا زیادہ مستحق مرد ہی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [البقرة: 228]
”اور ان کے شوہر انہیں لوٹانے کے زیادہ مستحق ہیں ۔“
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنی عورت کو خلع دینے کا کہا تو یہ نہیں دریافت کیا کہ وہ حائضہ تو نہیں یا اس نے طہر میں اس سے ہم بستری تو نہیں کی حالانکہ ان دونوں حالتوں میں طلاق حرام ہے۔ لٰہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ نہیں پوچھا بلکہ مطلقا خلع کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں ہے۔
(ابن تیمیہؒ ) خلع فسخِ نکاح ہے۔
[الفتاوي: 31/3 – 35]
(ابن قیمؒ) یقیناََ کسی ایک صحابی سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہے کہ یہ (یعنی خلع ) طلاق ہے۔ مزید رقمطراز ہیں کہ ”ہم بستری کے بعد طلاق دینے سے تین ایسے احکام لاگو ہوتے ہیں جو سب خلع میں نہیں ہیں۔
➊ طلاق میں مرد رجوع کا زیادہ حقدار ہوتا ہے۔
➋ طلاق کا شمار تین تک ہوتا ہے۔ اس عدد کے پورا ہونے کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک کہ کوئی دوسرا مرد اس سے شادی کے بعد ہم بستری نہ کرے۔
➌ طلاق کی عدت تین حیض ہے اور بلا شبہ نص اور اجماع کے ساتھ ثابت ہے کہ خلع میں رجوع نہیں ہوتا۔
[زاد المعاد: 197/5]
(خطابیؒ) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خلع کے طلاق نہ ہونے کا استدلال اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کیا ہے:
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ [البقرة: 229]
[معالم السنن: 255/3]
(البانیؒ) اسی کو برحق قرار دیتے ہیں۔
[التعليقات الرضية على الروضة: 273/2]
فقہا نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے:
(جمہور، مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) خلع طلاق ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، امام حسن ، امام شعبی ، امام نخعی ، امام عطا ، سعید بن مسیّب ، امام شریح ، امام مجاہد ، امام مکحول ، امام زہری ، امام سفیان اور ایک روایت کے مطابق امام شافعی رحمہم اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔
(احمدؒ) خلع فسخِ نکاح ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام طاؤس، امام اسحاق ، امام ابو ثور ، امام ابن منذر اور امام شافعی رحمہم الله اجمعین سے ایک روایت کے مطابق یہی قول مروی ہے ۔
[تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 142/4 ، الأم: 114/5 ، بدائع الصنائع: 151/3 ، نيل الأوطار: 344/4 ، المغنى: 250/11]
خلع کو طلاق کہنے والوں نے صحیح بخاری میں موجود ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو حکم دیا: طلقها تطليقة ”اسے طلاق دے دو۔“
[بخاري: 5273]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہاں لفظِ طلاق سے لغوی معنی (یعنی اسے چھوڑ دے) مراد ہے۔ اصطلاحی و شرعی معنی مراد نہیں ہے۔
اس کی عدت ایک حیض ہے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لے لیا:
فامرها النبى صلى الله عليه وسلم ان تعتد بحيضة
”تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 936 ، ابو داود: 2229 ، كتاب الطلاق: باب فى الخلع ، ترمذى: 1185]
➋ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کی بیوی کو ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
[صحيح: صحيح ترمذي: 945 ، ترمذى: 1185 ، ابن ماجة: 2085 ، نسائي: 3498]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
عدة المختلعة حيضة
”خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے۔“
[صحيح موقوف: صحيح ابو داود: 1951 ، كتاب الطلاق: باب فى الخلع ، ابو داود: 2230]
(ابن قیمؒ) انہوں نے ایک حیض عدت کو ثابت کیا ہے ۔
[أعلام الموقعين: 88/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1