بچہ بستر والے کے لیے ہے اور کسی اور سے اس کی مشابہت کا کوئی اعتبار نہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بچہ بستر والے کے لیے ہے اور کسی اور سے اس کی مشابہت کا کوئی اعتبار نہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الولد للفراش وللعاهر حجر
”بچہ بستر والے کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں ۔“
[بخاري: 6818 ، كتاب الحدود: باب للعاهر الحجر ، مسلم: 1458 ، ترمذي: 1157 ، نسائي: 180/6 ، ابن ماجة: 2006 ، دارمي: 152/2 ، بيهقي: 412/7 ، حميدي: 1085 ، عبد الرزاق: 443/7 ، أحمد: 239/2]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص نے (مرتے وقت جاہلیت میں ) اپنے بھائی (سعد بن ابی قاص رضی اللہ عنہ ) کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ کی باندی سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں۔ عتبہ نے کہا تھا کہ وہ میرا لڑ کا ہو گا چنانچہ جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس بچے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ عبد بن زمعہ بھی آئے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے۔ بھائی نے وصیت کی تھی کہ یہ اس کا لڑکا ہے۔ لیکن عبد بن زمعہ نے کہا اے اللہ کے رسول ! یہ میرا بھائی ہے (میرے والد ) زمعہ کا بیٹا ہے کیونکہ انہی کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھا تو وہ واقعی (سعد کے بھائی) عتبہ بن ابی وقاص کی شکل پر تھا لیکن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے (قانون شریعت کے مطابق) یہ فیصلہ کیا کہ اے عبد بن زمعہ ! تم ہی اس بچے کو رکھو یہ تمہارا بھائی ہے کیونکہ یہ تمہارے والد کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور سودہ رضی اللہ عنہا (جو کہ زمعہ کی بیٹی تھیں) سے فرمایا کہ ”تم اس لڑکے سے پردہ کرو“ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے میں عتبہ بن ابی وقاص کی شباہت پائی تھی ۔“
[بخارى: 4303 ، كتاب المغازي: باب ، مسلم: 1457 ، موطا: 739/2 ، أحمد: 129/6 ، ابو داود: 237 ، نسائي: 3684 ، ابن ماجة: 2004 ، دارمي: 152/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1