عزل کا مفہوم، شرعی حکم اور احادیث کی روشنی میں وضاحت
لفظ عزل باب عَزَلَ يَعْزِلُ (ضرب) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”جدا کر دینا“ ہے۔
[المنجد: ص/ 554]
اصطلاحی اعتبار سے عزل یہ ہے کہ مرد عورت سے جماع کرے اور جب انزال ہونے لگے تو آلہ تناسل کو عورت کی شرمگاہ سے باہر نکال کر انزال کر دے۔
یہاں ناجائز سے مراد مکروہ ہے یعنی عزل نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ بعض روایات میں اس سے ممانعت مروی ہے اور بعض میں جواز لٰہذا ممانعت کی احادیث کو کراہت پر محمول کیا جائے گا۔
ممانعت کی احادیث:
➊ حضرت جذامہ بنت وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
ذلك الواد الخفى
”يہ خفیہ طریقے سے زندہ درگور کرنا ہے۔“
[مسلم: 1442 ، كتاب النكاح: باب جواز الغيلة ، ابو داود: 3882 ، ترمذي: 2076 ، ابن ماجة: 2011 ، أحمد: 361/6 ، نسائي: 106/6 ، مؤطا: 607/2 ، دارمي: 146/2 ، ابن حبان: 4196 ، بيهقي: 465/7]
چونکہ یہ حقیقی زندہ درگور کرنا نہیں ہے اس لیے حرام نہیں ۔
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد عورت سے عزل کرنے سے منع فرمایا ہے الا کہ اس سے اجازت لے لی جائے۔
[ضعيف: إرواء الغليل: 2007 ، أحمد: 31/1 ، ابن ماجة: 1928]
جواز کی احادیث:
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كنا نعزل على عهد رسول الله والقرآن ينزل
”ہم عہد رسالت میں عزل کرتے تھے اور قرآن اس وقت نازل ہو رہا تھا۔“
[بخاري: 5209 ، كتاب النكاح: باب العزل ، مسلم: 1440 ، أبو يعلى: 2193 ، ترمذي: 1137 ، أحمد: 377/3 ، بيهقي: 228/7]
➋ ایک روایت میں ہے کہ یہ بات (یعنی صحابہ کا عزل کرنا ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہ فرمایا۔
[مسلم: 1440 ، كتاب النكاح: باب حكم العزل ، ابو داود: 2173 ، أبو يعلى: 2255 ، ابن حبان: 4195 ، طحاوي: 35/3 ، بيهقي: 228/7]
➌ کچھ صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما عليكم أن لا تفعلوا
”تم عزل کر سکتے ہو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن جن روحوں کی قیامت تک کے لیے پیدائش مقدر ہو چکی ہے وہ تو ضرور پیدا ہو کر رہیں گی (لٰہذا تمہارا عزل کرنا بے کار ہے ) ۔“
[بخاري: 2542 ، كتاب العتق: باب من ملك من العرب ، مسلم: 1438 ، ابو داود: 2172 ، أحمد: 98/3 ، مؤطا: 594/2 ، ابن حبان: 4193]
➍ ایک آدمی نے نبی صلى الله عليه وسلم سے کہا کہ میں اپنی لونڈی سے عزل کرتا ہوں اور مجھے ناپسند ہے کہ وہ حاملہ ہو ، یہودی کہتے ہیں کہ عزل تو چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود نے جھوٹ بولا ہے اگر اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہے تو اسے تو پھیر نہیں سکتا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1903 ، كتاب النكاح: باب ما جاء فى العزل ، ابو داود: 2171 ، أحمد: 151/3]
(ابن قیمؒ) جس چیز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو جھوٹا قرار دیا وہ ان کا یہ کہنا ہے کہ عزل کی صورت میں حمل کا تصور ہی نہیں۔ عزل حمل کو نہیں روک سکتا جبکہ اللہ تعالٰی اسے پیدا کرنا چاہیں اور اگر اس کا ارادہ ہی تخلیق کا نہ ہو تو فی الحقیقت وہ زندہ درگور کرنا ہی نہیں۔ حدیثِ جذامہ میں بھی اسے خفیہ زندہ درگور اسی لیے کہا گیا ہے کہ مرد حمل سے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عزل کرتا ہے۔ اسی بنا پر اس کے ارادے اور قصد کو زندہ درگور کی جگہ نافذ کیا ہے لیکن ان دونوں میں فرق ہے وہ یہ کہ زندہ درگور تو براہِ راست ایک ظاہر عمل ہے اور اس میں قصد و فعل دونوں جمع ہوتے ہیں مگر عزل کا تعلق صرف قصد و ارادے سے ہے۔ اس وجہ سے اسے وأد خفي کہا گیا ہے۔
[زاد المعاد: 145/5]
(شوکانیؒ ) یہ (امام ابن قیمؒ کی) جمع و تطبیق قوی ہے۔
[نيل الأوطار: 286/4]
(ابن حزمؒ ) عزل کرنا حرام ہے۔
[المحلى: 70/10 – 71]
امام ابن عبد البرؒ نے اس بات پر اجماع کا دعوی کیا ہے کہ آزاد بیوی کی اجازت کے بغیر اس سے عزل نہیں کیا جا سکتا لیکن دعوی اس بنا پر درست نہیں کیونکہ شافعیہ کے ہاں مطلقا عزل کا جواز معروف ہے۔
[فتح البارى: 385/10]
(راجح) عزل حرام و ناجائز نہیں بلکہ محض مکروہ ہے۔