جب کوئی سفر کا ارادہ کرے تو ان (بیویوں) کے درمیان قرعہ ڈال لے اور عورت کے لیے اپنی باری کسی اور کو دے دیتا یا اسے ختم کر کے خاوند سے مصالحت کر لینا درست ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله إذا أراد سفرا أقرع بين نسائه فأيتهن خرج سهمها خرج بها معه
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے پھر ان میں سے جس کا قرعہ نکل آتا اسے اپنے ساتھ لے کر نکلتے ۔“
[بخارى: 2593 ، كتاب الهبة وفضلها: باب هبة المرأة لغير زوجها ، مسلم: 138/7 ، ابو داود: 2138 ، ابن ماجة: 1970]
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کا اپنا دن اور سودہ رضی اللہ عنہا کا دن تقسیم کرتے تھے ۔
[بخارى: 5212 ، كتاب النكاح: باب المرأة تهب يومها….. ، مسلم: 1463 ، ابو داود: 2135 ، ابن ماجة: 1972 ، ابن حبان: 4211 ، بيهقى: 74/7]
(ابن حجرؒ) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے طلاق کے اندیشے سے اپنی باری ہبہ کر دی تھی ۔
[فتح البارى: 391/10]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت:
وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا [النساء: 128]
”اور کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو ۔ “
کے متعلق کہا کہ ایسا مرد جس کے ساتھ اس کی بیوی رہتی ہے لیکن شوہر کو اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں بلکہ وہ اسے جدا کر دینا چاہتا ہے۔ اس پر عورت کہتی ہے کہ میں اپنی باری اور اپنا نان و نفقه معاف کر دیتی ہوں (تم مجھے طلاق نہ دو ) ایسی صورت کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
[بخارى: 4601 ، كتاب التفسير: باب قوله: وإن امرأة خافت ، مسلم: 3021 ، أحمد: 68/6 ، نسائي: 145 ، ابن ماجة: 1972]