آدی پر کسی بد کار یا مشرکہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

آدی پر کسی بد کار یا مشرکہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے اور عورت پر بھی کسی بد کار یا مشرک مرد سے نکاح کرنا حرام ہے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
اَلزَّانِىْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً وَّّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ [النور: 3]
”زانی مرد صرف زانی یا مشرک عورت سے ہی نکاح کرتا ہے اور زانی عورت صرف زانی یا مشرک مرد سے ہی نکاح کرتی ہے اور یہ (نکاح) مسلمانوں پر حرام کیا گیا ہے۔“
➋ حضرت مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ نے جس ایک بدکار عورت (عناق) سے شادی کا اظہار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے حتی کہ یہ آیت:
وَّّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ [النور: 3]
نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر کہا:
تنكحها
”اس سے نکاح نہ کرو۔“
[حسن صحيح: صحيح ابو داود: 1806 ، كتاب النكاح: باب فى قوله تعالى: الزاني لا ينكح إلا زانية ، ابو داود: 2051 ، ترمذي: 3177 ، نسائي: 66/6]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ينكح الزاني المجلود إلا مثله
”ایسا زانی جسے کوڑے لگے ہوں صرف اپنے جیسے زانی سے ہی نکاح کر سکتا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1807 – أيضا ، ابو داود: 2052 ، أحمد: 324/2]
جس روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
إن امرأتى لا ترديد لامس
”میری بیوی کسی چھونے والے کا ہاتھ نہیں روکتی ۔“
پھر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح برقرار رکھا ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1804 ، كتاب النكاح: باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء ، ابو داود: 2049]
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عورت بدکار تھی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عورت محض کسی چھونے والے کے ہاتھ کو روکتی نہیں تھی یعنی غیرت و حمیت میں کمال درجے کی نہیں تھی۔ لٰہذا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پاک دامن مرد کا نکاح ایک بدکار عورت سے قائم رکھا۔ تاہم اس سے اتنا مفہوم ضرور اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کا ہاتھ نہ دوکنے پر طلاق کا مشورہ دے دیا تو اگر عورت فی الحقیقت زانیہ ہو تو بالا ولٰی اسے طلاق دے دینی چاہیے۔
جیسا کہ گذشتہ پہلی آیت:
وَّّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ
سے یہ واضح ہوتا ہے ۔ لٰہذا اگر ایسے کسی سے نکاح ہو چکا ہو تو اس سے علیحدگی کر لینی چاہیے۔
اور جن کے ساتھ نکاح کی حرمت کی قرآن نے وضاحت کر دی ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ أُمَّهَتُكُمُ …. [النساء: 24]
”حرام کی گئی ہیں تم پر تمہاری مائیں ، تمہاری لڑکیاں ، تمہاری بہنیں ، تمہاری پھوپھیاں ، تمہاری خالائیں ، بھائی کی لڑکیاں ، بہن کی لڑکیاں ، تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے، تمہاری دودھ شریک بہنیں ، تمہاری ساس ، تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں . تمہاری ان عورتوں سے ہے جن سے تم دخول کر چکے ہو ، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر گناہ نہیں ، تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں ، تمہارا دو بہنوں کو جمع کر لینا ، ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا۔ اور شوہر والی عورتیں الا کہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں ۔“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَأحِلَّ لَكُمُ مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ
”ان عورتوں کے علاوہ اور عورتیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں ۔“
(ابن قدامہؒ) امت نے ان تمام رشتوں کی حرمت پر اجماع کیا ہے جن کی حرمت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے نص بیان کر دی ہے۔
[المغني: 513/9]
◈ واضح رہے کہ:
أمهات (مائیں ) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں ، پر دادیاں اور ان سے آ گے تک ) سب شامل ہیں۔
بنات (بیٹیاں) میں پوتیاں ، نواسیاں اور پوتیوں اور نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک ) شامل ہیں۔ زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی شمار کرتے ہیں جبکہ امام شافعیؒ اسے بیٹی شمار نہیں کرتے پس جیسے یہ لڑکی يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ میں داخل نہیں اور بالا جماع وارث نہیں اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں ۔ والله اعلم
[تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 288/6 ، حلية العلماء: 379/6 ، نهاية المحتاج: 266/6 ، بداية المجتهد: 28/2 ، حواشى التحفة: 299/7 ، الشرقاوى على التحرير: 210/2]
اخوات (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی یا علاقی سب اس میں شامل ہیں۔
عمات (پھوپھیاں ) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا ، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔
خالات (خالائیں ) ان میں ماں کی سب مؤنث اصول (یعنی نانی ، دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔
بنت الأخ (بھتیجیاں ) ان میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بالواسطہ یا بلا واسطہ (یا صلبی و فرعی ) شامل ہیں۔
بنت الأخت (بھانجیاں) ان میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بالواسطہ یا بلا واسطہ (یا صلبی و فرعی ) شامل ہیں۔ یہ سات نسبی رشتے ہیں جو حرام ہیں ۔ اسی طرح سات رضائی رشتے بھی حرام ہیں جن کا ذکر آئندہ صفحات میں آئے گا۔ علاوہ ازیں چار سسرالی رشتے بھی حرام ہیں وہ یہ ہیں:
① ”بیوی کی ماں“ یعنی ساس ، اس میں بیوی کی نانی ، دادی بھی داخل ہے نیز اگر کسی عورت سے نکاح کے بعد بغیر مباشرت و ہمبستری کے ہی اسے طلاق دے دی جائے تب بھی اس کی ماں سے نکاح حرام ہو گا۔ البتہ اس کی لڑکی سے نکاح جائز ہو گا۔ –
ربيبه سے مراد وہ لڑکی ہے جو بیوی کے پہلے خاوند سے ہو۔ اس کی حرمت مشروط ہے یعنی اگر اس کی ماں سے مباشرت کر لی گئی ہو تو اس سے نکاح حرام ہے بصورت دیگر حلال ہے اور فِي حُجُورِكُم کی قید غالب احوال کی وجہ سے ہی لگائی گئی ہے۔
③ ”صلبی بیٹوں کی بیویاں“ بیٹوں میں پوتے اور نواسے بھی شامل ہیں۔ مزید برآں اس سے معلوم ہوا کہ لے پالک بیٹیوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے۔
④ ”دو رضائی یا نسبی بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا“ البتہ ایک کی وفات یا طلاق کی صورت میں عدت گزارنے پر دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔
اور پہلے سے شادی شدہ عورت سے بھی نکاح حرام ہے لیکن اگر وہ لونڈی ہو تو پھر اس سے مباشرت جائز ہے جبکہ استبرائے رحم ہو چکا ہو یا حاملہ ہے تو وضع حمل ہو چکا ہو۔
[تفسير فتح القدير: 444/1 – 456]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1