شادی کے لیئے لڑکے اور لڑکی کا دین اور اخلاق میں برابر ہونا ہی کافی ہے

 

تحریر: عمران ایوب لاہوری

ایسے شخص کے متعلق جو اس کا کفو (ہمسر ) ہو
کس کس چیز میں کفائت کا اعتبار کیا جائے گا؟ اس مسئلے میں فقہا نے طویل اختلاف کیا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا دین اور اخلاق میں برابر وکفو ہونا ہی کافی ہے اس کے علاوہ کسی چیز میں برابر ہونا ضروری نہیں ۔ اور جن روایات سے حسب نسب یا دیگر اشیا میں برابری کا حکم لگایا جاتا ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا ان میں مذکورہ مسئلے کے لیے واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ مزید اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو ، کنبے قبیلے بنا دیے ہیں:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ [الحجرات: 13]
”اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ “
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ [البقرة: 221]
”مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ “
الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً [النور: 3]
”زانی مرد صرف زانیہ عورت یا مشرکہ عورت سے ہی نکاح کرتا ہے۔ “
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إذا خطب إليـكـم مـن ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوه تكن فتنة فى الأرض وفساد عريض
”جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا ۔“
[حسن: إرواء الغلل: 1868 ، ترمذي: 1084]
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ صرف دین و اخلاق میں ہی کفائت کا اعتبار کیا جائے گا۔
(مالکؒ) کفائت صرف دین کے ساتھ مختص ہے۔
[نيل الأوطار: 206/4]
(ابن حجرؒ) بالا تفاق دین میں کفائت کا اعتبار کیا جائے گا لٰہذا کسی مسلمان عورت کا کسی کافر سے نکاح جائز نہیں ۔
[فتح البارى: 165/10]
(شوکانیؒ) دین میں کفائت بالاتفاق معتبر ہے۔
[السيل الجرار: 300/2]
مال میں کفائت ضروری نہیں جیسا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، (ایک تاجر و مالدار شخص ) کی بہن حضرت بلال رضی اللہ عنہ (حبشی غلام) کے نکاح میں تھی ۔
[دار قطني: 302/3]
اسی طرح حسب نسب میں بھی کفایت ضروری نہیں یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (جو کہ غلام تھے ) کا نکاح زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا (جو ایک قریشی خاتون تھیں) سے کرادیا تھا ۔
[تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 553/15]
علاوہ ازیں اگرچہ چھوٹی عمر کی لڑکی کا نکاح بڑی عمر کے لڑکے کے ساتھ تو جائز ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کی عمر ابھی نو سال تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چون (54) سال تھی ۔
لیکن زیادہ مناسب اور بہتر یہ ہے کہ دونوں کی عمروں کا بھی لحاظ رکھا جائے جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنها صغيرة
”بلاشبہ یہ چھوٹی عمر کی ہے ۔“
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کا پیغام بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حضرت فاطمه رضی اللہ عنہا کی شادی کر دی ۔
[صحيح: التعليقات الرضية على الروضة الندية: 151/2 ، نسائي: 70/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1