حجِ قران کرنے والے کے لیے ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہے
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من احـرم بـالـحــج والعمرة أجزأه طواف واحد وسعى واحد منهما حتى يحل منهما جميعا
”جس نے حج اور عمرے کا (اکٹھا ) احرام باندھا اسے ان دونوں سے ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہو جائے گی حتی کہ وہ ان دونوں سے اکٹھا حلال ہو جائے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 756 ، صحيح ابن ماجة: 2409 ، ترمذي: 948 ، أحمد: 67/2 ، ابن ماجة: 2975 ، ابن خزيمة: 2745]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:
ليسعك طوافك لحجك وعمرتك
”تمہيں حج اور عمرے کے لیے (ایک ہی ) طواف کافی ہو جائے گا۔“
[أحمد: 124/6 ، مسلم: 2123 ، كتاب الحج: باب بيان وجوه الإحرام ….]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کے لیے ایک ہی طواف کیا۔
[بخاري: 1693 ، كتاب الحج: باب من اشترى الهدى من الطريق ، مسلم: 1230]
➍ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
لم يطف النبى ولا أصحابه بين الصفا والمروة إلا طوافا واحدا
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف ایک ہی طواف کیا ۔“
[مسلم: 1215 ، كتاب الحج: باب بيان وجوه الإحرام …..، ابو داود: 1895 ، نسائي: 244/5 ، ترمذي: 947 ، ابن ماجة: 2973 ، أحمد: 317/3]
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
إن الذين جمعوا بين الحج والعمرة طافوا طوافا واحدا
”بے شک جن لوگوں نے حج اور عمرے کو اکٹھا کر لیا (یعنی حجِ قران کیا ) انہوں نے ایک ہی طواف کیا ۔“
[بخارى: 1938 ، كتاب الحج: باب طواف القارن]
معلوم ہوا کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
(جمہور، احمدؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) قارن کے لیے دو طواف اور دو سعی لازم ہیں ۔
[شرح مسلم للنووى: 424/4 ، تحفة الأحوذي: 836/3 ، نيل الأوطار: 434/3 ، شرح المهذب: 84/8 ، الأم: 193/2 ، الحجة على أهل المدينة: 1/2 ، حاشية الدسوقي: 28/2 ، المغنى: 315/5 ، كشاف القناع: 412/2 ، هداية السالك: 914]
امام ابو حنیفہؒ اور ان کے ہم رائے حضرات کی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایات ہیں لیکن وہ ضعیف ہیں اور گذشتہ صحیح احادیث کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے انہیں ضعیف کہا ہے ۔
[فتح البارى: 301/4]
(ابن حزمؒ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی بھی صحابی سے اس مسئلے (یعنی قارن کے لیے دو طواف اور دو سعی لازم ہیں ) میں کچھ بھی صحیح ثابت نہیں ہے۔
[المحلى بالآثار: 184/5]
(صدیق حسن خانؒ) انہوں نے جمہور کے مؤقف کو ترجیح دی ہے۔
[الروضة الندية: 623/1]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوذى: 838/3]
اور دوران طواف وہ با وضوء اور ستر ڈھانپنے والا ہو
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
أنه صلى الله عليه وسلم توضأ ثم طاف بالبيت
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا پھر بیت اللہ کا طواف کیا ۔ “
[بخاري: 1641 ، 1642 ، كتاب الحج: باب الطواف على الوضوء ، مسلم: 1235 ، ابن خزيمة: 2699]
واضح رہے کہ طواف کے لیے وضوہ شرط یا واجب نہیں ہے کیونکہ اس ضمن میں صرف مذکورہ حدیث ہی مروی ہے جس میں محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا ہی ذکر ہے اور یہ بات اصول میں ثابت ہے کہ مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔
(البانیؒ) رقمطراز ہیں کہ اکثر سلف طواف کے لیے نماز کی شروط عائد نہیں کرتے۔
(ابو حنیفہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابن تیمیہؒ) اسی کو درست قرار دیتے ہیں۔
(صدیق حسن خانؒ) یہی موقف رکھتے ہیں ۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 94/2 ، مجموع الفتاوى: 453/2 ، الروضة الندية: 624/1]
تا ہم جو لوگ طواف کے لیے وضو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الطواف حول البيت مثل الصلاة
”بيت اللہ کے گرد طواف نماز کی مانند ہے۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 767 ، كتاب الحج: باب ما جاء فى الكلام فى الطواف ، إرواء الغليل: 121 ، المشكاة: 2576 ، ترمذي: 960 ، دارمي: 44/2 ، ابن خزيمة: 2739]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
أقلوا من الكلام فى الطواف فإنما أنتم فى الصلاة
”دورانِ طواف کم کلام کیا کرو کیونکہ بے شک تم نماز میں ہوتے ہو۔“
[صحيح موقوف: صحيح نسائي: 2736 ، كتاب مناسك الحج: باب إباحة الكلام فى الطواف ، نسائي: 2923 ، شيخ صبحي حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على الروضة الندية: 625/1]
(احمدؒ ، مالکؒ ، شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(شوکانیؒ ) وجوب کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔
[المغنى: 223/5 ، السيل الجرار: 191/2]
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے اعلان کروا دیا:
ولا يطوف بالبيت عريانا
” (اس سال کے بعد ) کوئی بھی عریاں حالت میں بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا ۔“
[بخاري: 4656 ، كتاب التفسير: باب قوله و أذان من الله ورسوله ، مسلم: 1347]
(جمہور) صحت طواف کے لیے ستر ڈھانپنا شرط ہے۔
(احناف) ستر ڈھانپنا شرط نہیں ہے۔
[نيل الأوطار: 396/3]