حجرِ اسود کے استلام کے مسنون طریقے اور فضائل
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے اور کسی قسم کے نفع و نقصان کا مالک نہیں :
ولولا أني رأيت رسول الله يقبلك ما قبلتك
”اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔“
[بخاري: 1597 ، كتاب الحج: باب ما ذكر فى الحجر الأسود ، مسلم: 1270 ، ابو داود: 1873 ، نسائي: 227/5 ، ترمذى: 862 ، أحمد: 86/1 ، بيهقى: 74/5 ، شرح السنة: 68/4]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز یہ پتھر (حجر اسود ) ایسے آئے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن کے ذریعے یہ دیکھے گا اور زبان ہو گی جس کے ذریعے یہ بول کر ایسے شخص کے لیے گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کا بوسہ لیا ہو گا ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2382 ، المشكاة: 2578 ، ترمذي: 961 ، كتاب الحج: باب ما جاء فى الحجر الأسود ، ابن ماجة: 2944 ، أحمد: 247/1 ، ابن خزيمة: 2735 ، دارمي: 42/2 ، أبو يعلى: 2719 ، ابن حبان: 3711 ، حاكم: 457/1 ، بيهقي: 75/5]
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی اونٹنی پر طواف کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کو ایک چھڑی کے ذریعے چھوتے تھے ۔
[بخاري: 1607 ، كتاب الحج: باب استلام الركن بمححن ، مسلم: 1272 ، أحمد: 214/1 ، ابو داود: 1877 ، نسائي: 233/5 ، ابن ماجة: 2948 ، مسند شافعي: 345/1 ، عبد الرزاق: 8935 ، شرح السنة: 1907 ، ابن الجارود: 463 ، ابن حبان: 3829 ، طبراني: 12070]
➋ حضرت ابو الطفيل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ زائد ہیں:
ويقبل المحجن
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھڑی کا بوسہ لیتے ۔“
[مسلم: 1275 ، كتاب الحج: باب جواز الطواف على بعير وغيره واستلام الحجر بمحجن ، ابن ماجة: 2949]
◈ حجر اسود کو چھونے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین طریقے ثابت ہیں:
① حجر اسود کو بوسہ دینا۔
② کسی چھڑی کے ذریعے حجر اسود کو چھونا اور پھر چھڑی کو بوسہ دینا (یہ دونوں طریقے پیچھے گزر چکے ہیں)۔
③ اپنے ہاتھ کے ساتھ حجر اسود کو چھو کر اپنے ہاتھ کو بوسہ دینا جیسا کہ نافعؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنے ہاتھ کے ساتھ پتھر کو چھوتے ہوئے دیکھا پھر انہوں نے اپنے ہاتھ کو بوسہ دیا اور کہا:
ما تركته منذ رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله
”میں نے اس عمل کو اس وقت سے نہیں چھوڑا جب سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے دیکھا ہے ۔“
[أحمد: 108/2 ، بخارى: 1606 ، كتاب الحج: باب الرمل فى الحج والعمرة ، مسلم: 1267 ، نسائي: 232/5 ، ابن خزيمة: 2715 ، ابن الجارود: 453 ، دارمي: 372/1 ، ابن حبان: 3824 ، بيهقي: 75/5]
اور رکن یمانی کو بھی چھو کر گزرے
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رکن یمانی اور رکن اسود کو چھونا خطاؤں کو گرا دیتا ہے۔“
[صحيح: صحيح الجامع: 2194 ، أحمد: 3/2 ، نسائي: 2919 ، كتاب مناسك الحج: باب ذكر الفضل فى الطواف بالبيت ، ترمذى: 959 ، عبد بن حميد: 831 ، ابن خزيمة: 2729]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
ولم أر النبى صلى الله عليه وسلم يستلم من البيت إلا الركنين اليمانيين
”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف دونوں یمانی رکنوں کو ہی چھوتے دیکھا۔“
[بخاري: 1609 ، كتاب الحج: باب من لم يستلم الركنين اليمانيين ، مسلم: 1267 ، احمد: 89/2 ، ابو داود: 1874 ، نسائي: 2946 ، ابن ماجة: 2946 ، عبد الرزاق: 8937 ، طحاوي: 183/2 ، بيهقي: 76/5 ، شرح السنۃ: 1902 ، ابن خزیمۃ: 2725]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يستلم الركن اليماني والحجر فى كل طواف
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام کرتے تھے۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1110 ، نسائي: 2947 ، كتاب مناسك الحج: باب استلام الركنين فى كل طواف ، حاكم: 456/1 ، بيهقى: 80/5 ، ابو داود: 1876]
◈ یاد رہے کہ کعبہ کے چار کونے ہیں: حجر اسود ، رکن یمانی ، رکن شامی اور رکن عراقی ۔ حجر اسود اور رکن یمانی کو ”رکنین یمانیین“ اور رکن شامی اور رکن عراقی کو ”رکنین شامیین“ کہتے ہیں۔