مسجد میں نکاح کرنے کا حکم
مقدمہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ رَسُولِهِ الْأَمِينِ، وَعَلَىٰ آلِهِ وَأَصْحَابِهِ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ بِإِحْسَانٍ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ، أَمَّا بَعْدُ:
قارئین کرام: نکاح کے متعلق جتنے احکام تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دیئے ہیں جو صحیح و حسن اسانید سے مروی ہیں مثلاً: ولی کی اجازت، ایجاب و قبول، مہر، وغیرہ وغیرہ۔ مگر عقد نکاح کہاں کیا جائے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات میں سے کسی بھی روایت میں جگہ کا صراحتاً ذکر نہیں ہے البتہ بعض روایات میں مسجد میں نکاح کرنے، اور مسجد ہی میں نکاح کا کیا جانا نیز مسجد میں نکاح کروایا جانا بھی مذکور ہے
ان شاء اللہ تعالیٰ ان روایات کو ذکر کرتے ہوئے بتوفیق اللہ تعالیٰ اس کی وضاحت کریں گے۔
روایت نمبر 1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے کہ: ✍🏻
«أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي المَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ».
مفہوم: ✍🏻«اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس پر دف بجاؤ»۔
{📚سنن الترمذي: أَبْوَابُ النِّكَاحِ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَاب مَا جَاءَ فِي إِعْلاَنِ النِّكَاحِ: ح١٠٨٩، وفي📚تاريخ أصبهان لأبو نعيم الأصبهاني: ج١ ص٢١٤ ت٣١٤. وفي📚السنن الكبرى للبيهقي: كِتَابُ الصَّدَاقِ: بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ إِظْهَارِ النِّكَاحِ وَإِبَاحَةِ الضَّرْبِ بِالدُّفِّ عَلَيْهِ وَمَا لَا يُسْتَنْكَرُ مِنَ الْقَوْلِ: ج٧ ص٢٩٠ (ح١٤٦٩٩)}.
تنبیہ⚠: اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس روایت کی سند میں ایک راوی "عیسیٰ بن میمون” ہے اور یہ "ضعیف” ہے۔ لہٰذا یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے۔
نوٹ📝: بعض علماء نے اسی روایت ہی کی بنیاد پر "مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دیا ہے”۔ شاید ہوسکتا ہے کہ ان علماء کرام کے نزدیک یہ روایت ثابت تھی ہوگی۔
واللہ اعلم
روایت نمبر 2
ثقہ تابعی صالح مولی توامہ رحمہ اللہ نے کہا:
✍🏻رَأَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةً فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟» قَالُوا: نِكَاحٌ قَالَ: «هَذَا النِّكَاحُ لَيْسَ بِالسِّفَاحِ».
مفہوم: ✍🏻«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں کچھ لوگوں کو اکھٹا دیکھا تو دریافت کیا: «یہ کیوں اکھٹے ہیں؟» لوگوں نے کہا: نکاح کی وجہ سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «یہ نکاح ہے زنا نہیں ہے»۔
{📚المصنف لعبد الرزاق بن همام: كِتَابُ النِّكَاحِ: بَابُ النِّكَاحِ فِي الْمَسْجِدِ: ج٦ ص١٨٧ ح١٠٤٤٨}.
تنبیہ⚠: اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے کیونکہ یہ مرسل یعنی منقطع ہے، اور اس کی سند میں امام ابن جریج رحمہ اللہ مدلس ہیں اور انھوں نے سماع کی صراحت نہیں کی ہے، البتہ ان کی متابعت ایک اور راوی نے کر رکھی ہے اور وہ "ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ سمعان الاسلمی المدنی” ہے اور اس پر محدثین و محققین نے "کذاب و متروک” کی جرح کی ہے۔ لہٰذا اس روایت سے استدلال کرنا بالکل بھی صحیح نہیں ہے۔
روایت نمبر 3
درج ذیل روایت میں مسجد میں نکاح ہونے اور یہ نکاح خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کروانے کی صراحت ہے۔ چنانچہ:
امام ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن زیاد النیسابوری (م٣٢٤هـ) نے کہا:
نا محمد بن أحمد بن الجنيد وعباس، واللفظ لمحمد، نا الأسود بن عامر، قال: نا سفيان، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: ✍🏻«جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ عَلَيْهِ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ، وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، جِئْتُ أَهَبُ نَفْسِي لَكَ، قَالَ: فَصَعَّدَ رَأْسَهُ وَصَوَّبَ، قَالَ: قَامَتْ طَوِيلا، ثُمَّ جَلَسَتْ، فَقَامَ رَجُلٌ عَلَيْهِ إِزَارٌ وَلَيْسَ عَلَيْهِ رِدَاءٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ إِلَيْهَا حَاجَةٌ، أَوْ فِيهَا حَاجَةٌ، فَزَوِّجْنِيهَا، قَالَ: «هَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ؟». قَالَ: لا، فَقَالَ: «إِنَّهُ لا يَصْلُحُ، ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ». قَالَ: لَمْ أَجِدْ شَيْئًا، قَالَ: «وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ». قَالَ: فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، قَالَ: وَقَدْ قَالَ قَبْلَ ذَلِكَ: إِزَارِي بَيْنِي وَبَيْنَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ عَلَيْهِ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ: «كَيْفَ؟ إِنْ أَخَذَتْهُ مِنْكَ عَرِيتَ، وَإِنْ لَبِسَتْهُ عَرِيتْ»، قَالَ: فَقَامَ طَوِيلا، ثُمَّ وَلَّى، فَقَالَ: «عَلَيَّ بِالرَّجُلِ». قَالَ: «تُحْسِنُ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا؟». قَالَ: نَعَمْ؛ مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا. قَالَ: «عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ؟». قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: «فَإِنِّي قَدْ أَنْكَحْتُهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ».
مفہوم: ✍🏻«سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے اُس خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس لیے آئی ہوں کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردوں، راوی نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور جھکا لیا، راوی نے کہا: خاتون دیر تک کھڑی رہی پھر بیٹھ گئی، پھر ایک شخص کھڑا ہوا جو صرف تہبند پہنے ہوئے تھا اور اس پر کوئی چادر نہیں تھی، اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ کو ان کی ضرورت نہیں ہے تو ان کا نکاح مجھ سے کرا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہارے پاس (مہر میں دینے کے لئے) کچھ ہے؟ اُس شخص نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بے شک یہ درست نہیں ہے تم اپنے گھر جاؤ۔ اُس شخص نے کہا: مجھے کچھ نہیں ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (جاؤ تلاش کرو) ایک لوہے کی انگھوٹی بھی اگر (مل جائے) تو لے آؤ۔ اُس شخص نے کہا: مجھے کچھ نہیں ملا۔ راوی نے کہا: اور تحقیق کہ اس سے پہلے اُس شخص نے یہ کہا: میری ازار کو میرے اس خاتون کے مابین کر دیجیے۔ تو رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نے کہا: کیسے؟ اگر خاتون ازار کو تجھے سے لےلے تو تو برہنہ، اور اگر تو پہن لے تو خاتون برہنہ رہے جائے گی۔ راوی نے کہا: وہ شخص کافی دیر کھڑا رہا، پھر وہ چلا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اُس شخص کو میری طرف بھیجو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص سے پوچھا: قرآن میں سے کچھ یاد ہے؟ اُس شخص نے کہا: جی ہاں، مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا زبانی پڑھ لیتے ہو۔ اُس شخص نے کہا: جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بے شک میں نے تمہارا نکاح ان سے اس قرآن پر کیا جو تم کو یاد ہے»۔
{📚الزيادات على كتاب المزني: كِتَابُ الْوَصَايَا: بَابُ مَا جَاءَ فِي أَمْرِ رَسُولِ اللّٰهِ، عَلَيْهِ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ، وَأَزْوَاجِهِ فِي النِّكَاحِ: ص٥٣٢-٥٣٣ ح٥٥٢ بتحقيق دكتور خالد بن نايف بن عريج المطيري وقال المحقق: "والحديث إسناده صحيح”}.
نوٹ📝: یہ روایت کتب ستہ میں مختصراً و مطولاً مروی ہے دیکھیے:
📚صحيح البخاري: ح٢٣١٠ وح٥٠٢٩، وح٥٠٣٠، وح٥٠٨٧، وح٥١٢١، وح٥١٢٦، وح٥١٣٢، وح٥١٣٥، وح٥١٤١، وح٥١٤٩، وح٥١٥٠، وح٥٨٧١، وح٧٤١٧،
وفي📚صحیح مسلم: ح١٤٢٥، نسخہ دارالسلام: ح٣٤٨٧،
وفي📚سنن ابن ماجه: ح١٨٨٩،
وفي📚سنن أبو داود: ح٢١١١،
وفي📚سنن الترمذي: ح١١١٤،
وفي📚سنن النسائي: ح٣٢٠٢، وح٣٣٤١، وح٣٣٦١.
نوٹ📝: مگر اس روایت سے یہ واضح نہیں ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح قصداً کروایا تھا بلکہ یہ نکاح اتفاقاً ہوا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور وہ صحابی و صحابیہ بھی وہیں تھے۔ اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نکاح کروادیا۔ شاید ہی علماء کرام میں سے کسی نے اس روایت سے مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دیا ہوگا۔
واللہ اعلم البتہ بعض اہل علم نے اس حدیث کو مسجد میں نکاح کے مباح ہونے پر استدلالاً بیان کیا ہے۔
علماء کے چند اقوال اور دلائل
فائدہ➕: امام ابو بکر عبد الرزاق بن ھمام الصنعانی (م٢١١هـ) نے اپنی کتاب: ✍🏻”
📚المصنف” میں ✍🏻”كتاب النكاح” میں ایک باب ان الفاظ کے ساتھ قائم کیا ہے کہ: ✍🏻«بَابُ النِّكَاحِ فِي الْمَسْجِدِ». یعنی: «مسجد میں نکاح کیے جانے کا باب»۔
{📚المصنف: كتاب النكاح: باب النكاح في المسجد: ج٦ ص١٨٧ قبل ح١٠٤٤٨}.
*➕درج ذیل علماء کرام نے مسجد میں نکاح کرنے کو مباح قرار دیا ہے اور وہ یہ ہیں:
- (1): امام احمد بن حمدان الحرانی (م٦٩٥هـ)
- (2): امام ابو بکر بن زید الجراعی الصالحی (م٨٨٣هـ)
- (3): شیخ عبد الرزاق عفیفی (م١٤١٥هـ)
- (4): شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (م١٤٢٠هـ)
- (5): شیخ محمد بن صالح عثیمین (م١٤٢١هـ)
- (6): شیخ عبد اللہ بن قعود (م١٤٢٦هـ)
- (7): شیخ عبد اللہ بن غديان (م١٤٣١هـ)
- (8): شیخ عبد الستار حماد حفظہ اللہ۔
(1): امام ابو بکر بن زید الجراعی الصالحی (م٨٨٣هـ) نے ✍🏻”أحكام المساجد” میں کہا: ✍🏻«يباح عقد النكاح فيه، ذكره في "الرعاية” وغيرها». مفہوم: ✍🏻«مسجد میں نکاح کرنا مباح ہے، (احمد بن حمدان (م٦٩٥هـ) نے اپنی کتاب) "الرعایہ” میں اس بات کو ذکر کیا ہے اور دوسروں نے بھی»۔
{📚تحفة الراكع والساجد بأحكام المساجد: ص٣٤٧}.
(2): سعودی عرب کی فتوی کمیٹی کے علماء کرام سے سوال کیا گیا کہ: ✍🏻«أرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح حكم الشرع في إقامة عقد القران في المسجد مع العلم أن العقد سوف يكون مقرونا بالالتزام بالتعاليم الإسلامية، وهي عدم الاختلاط بين الرجال والنساء أو اصطحاب المعازف؟». مفہوم: ✍🏻«برائے مہربانى مسجد ميں نكاح كرنے كا شرعى حكم واضح كريں، يہ علم ميں رہے كہ عقد نكاح اسلامى تعليمات كے مطابق ہو گا اور اس ميں مرد و عورت كا اختلاط بھى نہيں اور نہ ہى گانا بجانا ہے؟»۔
كميٹى کے علماء کرام یعنی شیخ عبد الرزاق عفیفی (م١٤١٥هـ)، شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (م١٤٢٠هـ)، شیخ عبد اللہ بن قعود (م١٤٢٦هـ) اور شیخ عبد اللہ بن غديان (م١٤٣١هـ) نے جواب میں کہا: ✍🏻«إذا كان الواقع ما ذكر فلا بأس بإجراء عقد النكاح في المسجد». مفہوم: ✍🏻«اگر واقعتاً ايسا ہى ہے جيسا بيان ہوا ہے تو پھر مسجد ميں عقد نكاح كرنے ميں كوئى حرج نہيں»۔
{📚فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء: ج١٨ ص١١٠ رقم: ٨٠٤٩}.
(3): سعودی عرب کی فتوی کمیٹی کے علماء کرام سے سوال کیا گیا کہ: ✍🏻«هل المواظبة على عقد عقود الزواج في المساجد يعتبر من السنة المستحبة، أم يعتبر من البدع؟». مفہوم: ✍🏻«كيا مساجد ميں نكاح كرنا پر لزوم اختيار كرنا مستحب سنت ميں شامل ہوتا ہے يا كہ بدعت؟»۔
كميٹى کے علماء کرام یعنی شیخ عبد الرزاق عفیفی (م١٤١٥هـ)، عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (م١٤٢٠هـ) اور شیخ عبد اللہ بن غديان (م١٤٣١هـ) نے جواب میں کہا: ✍🏻«الأمر في إبرام عقد النكاح في المساجد وغيرها واسع شرعاً، ولم يثبت فيما نعلم دليل يدل على أن إيقاعها في المساجد خاصة سنة، فالتزام إبرامها في المساجد بدعة». مفہوم: ✍🏻«مساجد وغيرہ ميں عقد نكاح كرنے كے معاملہ ميں شرعى گنجائش ہے، اور ہمارے علم كے مطابق تو كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جس سے يہ معلوم ہوتا ہو كہ خاص كر مساجد ميں نكاح كرنا سنت ہے، اس ليے مساجد ميں نكاح كا التزام (لازم) كرنا بدعت ہے»۔
{📚فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء: ج١٨ ص١١٠ رقم: ٩٣٨٨}.
(4): شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (م١٤٢٠هـ) سے سوال کیا گیا کہ: ✍🏻«نسمع أن بعض الناس يعقد قرانه أي الزواج بالمسجد الحرام، ويقولون: بأنه مبارك، نرجو أن يكون الزواج كذلك وموفقًا إن شاء الله، فما الحكم الشرعي في ذلك يا شيخ؟». مفہوم: ✍🏻«ہم سنتے ہیں کہ بعض الناس عقد زواج کو مسجد حرام میں منعقد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: وہ مبارک مقام ہے تو ہماری امید ہے کہ نکاح بھی مبارک و کامیاب ہوگا
ان شاء اللہ۔ تو شیخ اس میں حکم شرعی کیا ہے؟».
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (م١٤٢٠هـ) نے جواب میں کہا: ✍🏻«لا أعلم في هذا دليلاً، في أي مكان عقد فلا بأس، في المسجد أو في البيت أو في أي مكان لا بأس، لا أعلم لخصوصية المسجد دليلاً واضحًا، لا أذكر دليلاً واضحًا في عقد النكاح في المسجد». مفہوم: ✍🏻«میں اس بارے میں کوئی دلیل نہیں جانتا نکاح کسی بھی مقام میں کرنے میں کوئی حرج نہیں مسجد میں ہو یا گھر میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خصوصی مسجد ہی میں نکاح کیا جائے اس بارے میں میں کوئی واضح دلیل نہیں جانتا اور اس بارے میں بھی مجھے کوئی واضح دلیل یاد نہیں کہ مسجد میں عقد نکاح کیا جائے»۔
{📚فتاوى نور على الدرب: ج٢٠ ص١٧٢-١٧٣ بترتيب: دكتور محمد بن سعد الشويعر}.
(5): شیخ محمد بن صالح عثیمین (م١٤٢١هـ) سے اسی طرح سوال کیا گیا کہ: ✍🏻«بعض الناس يعتقد أن عقد النكاح في المسجد مستحب، فهل ورد دليلٌ على ذلك؟». مفہوم: ✍🏻«بعض لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مسجد میں نکاح کرنا مستحب ہے، تو کیا اس پر کوئی دلیل وارد ہے؟».
شیخ محمد بن صالح عثیمین (م١٤٢١هـ) نے جواب میں کہا: ✍🏻«استحباب عقد النكاح في المسجد لا أعلم له أصلاً، ولا دليلاً عن النبي صلى الله عليه وسلم، لكن إذا صادف أن الزوج والولي موجودان في المسجد وعقد: فلا بأس؛ لأن هذا ليس من جنس البيع والشراء، ومن المعلوم أن البيع والشراء في المسجد حرام، لكن عقد النكاح ليس من البيع والشراء، فإذا عقد في المسجد: فلا بأس، أما استحباب ذلك بحيث نقول: اخرجوا من البيت إلى المسجد، أو تواعدوا في المسجد ليعقد فيه: فهذا يحتاج إلى دليل ، ولا أعلم لذلك دليلاً». مفہوم: ✍🏻«مسجد ميں عقد نكاح كے استحباب كے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے كسى اصل اور دليل كا تو ہميں علم نہیں ہے، ليكن اگر ولى اور خاوند مسجد ميں موجود ہوں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ خريد و فروخت ميں شامل نہيں، كيونكہ يہ معلوم ہے كہ مسجد ميں خريد و فروخت كرنا حرام ہے، ليكن عقد نكاح خريد و فروخت ميں داخل نہيں، اس ليے اگر مسجد ميں عقد نكاح ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں ہے، ليكن اس كو اس صورت ميں مستحب كہنا كہ اسے گھر سے نكال كر مسجد ميں لے جائيں، يا پھر عقد نكاح كے ليے مسجد كا وعدہ ہو تو يہ دليل كا محتاج ہے، اور ميرے علم كے مطابق تو اس كى كوئى دليل نہيں»۔
{📚لقاء الباب المفتوح: تفسير آيات من سورة النجم: الأسئلة: حكم عقد النكاح في المسجد: ١٦٧، ١٧، بحواله: المكتبة الشاملة}.
(6): اور شیخ محمد بن صالح عثیمین (م١٤٢١هـ) سے اس قسم کا بھی سوال ہوا ہے: ✍🏻«هل يجوز عقد النكاح في المساجد؟». مفہوم: ✍🏻«کیا مساجد میں عقد نکاح جائز ہے؟».
اس پر آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا: ✍🏻«نعم يجوز أن تعقد الأنكحة في المساجد إذا لم يكن في هذا ضرر على المسجد أو على أهل المسجد فإن كان عليهم ضرر فإنه لا يجوز وإنما تعقد في أماكن مخصوصة لها إن كان لها أماكن مخصوصة في المحكمة مثلاً وإلا ففي البيوت». مفہوم: ✍🏻«مسجد میں عقد نکاح جائز ہے اگر اس میں مسجد یا اہل مسجد کے لیے کوئی ضرر (نقصان) نہ ہو، اگر اس میں ان کے لئے کوئی نقصان والی بات ہے تو عقد نکاح جائز نہیں اگر مثلا محکمے میں عقد نکاح کے لئے مخصوص مقامات ہیں تو وہیں اسکا انعقاد کیا جائے یا نہیں تو گھر میں کیا جائے»۔
{📚فتاوى نور على الدرب: ج١٠ ص١١١ رقم: ٥٠٥٧}
نوٹ📝: شیخ رحمہ اللہ کے اس فتوے سے ہم پر یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ شیخ کے نزدیک مسجد میں عقد نکاح کے مستحب ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے مگر مسجد میں نکاح کرنا شیخ کے نزدیک بھی مباح و جائز تھا۔ لہذا لوگوں کو چاہیے کہ شیخ رحمہ اللہ کے فتاویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے عدل و انصاف سے کام لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ایک فتوے کو مدنظر رکھتے ہوئے شیخ رحمہ اللہ کے موقف کی غلط ترجمانی کرو جو کہ شیخ رحمہ اللہ پر سراسر الزام ہوگا۔
(7): شیخ عبد الستار حماد حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ: ✍🏻«عقد نکاح کے لیے مساجد ہی کو خاص کرنا کہاں تک درست ہے؟ اس کے متعلق کوئی حدیث مروی ہے تو اس سے بھی آگاہ کریں»۔
شیخ عبد الستار حماد حفظہ اللہ نے جواب میں کہا: ✍🏻«عقد نکاح مساجد میں یا ان کے علاوہ دیگر مقامات میں دونوں طرح صحیح و درست ہے۔ البتہ مساجد میں نکاح کے اہتمام سے بہت سے برائیوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، جبکہ دیگر مقامات پر یعنی شادی ہال وغیرہ میں بہت سی برائیوں کو علانیہ کیا جاتا ہے، مساجد میں نکاح کرنے سے سگریٹ نوشی فوٹو گرافی یا ویڈیو وغیرہ سے انسان محفوظ رہتا ہے، اس بنا پر بہتر ہے کہ عقد نکاح کے لیے مساجد میں اہتمام کیا جائے اس سلسلہ میں ایک حدیث مروی ہے: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس نکاح اعلان کرو اور عقد نکاح کے لیے مساجد کا انتخاب کرو”
{📚سنن الترمذي: ح١٠٨٩}.
اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے
{📚ضعيف الترمذي: ح١٨٥}. تاہم کچھ علماء نے اسے حسن قرار دیا ہے
{📚السيل الجرار: ج٢ ص٢٣٦}. اس حدیث کی وجہ سے علامہ شوکانی نے مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اگر شادی ہال میں اہتمام کے بجائے مساجد کا انتخاب کیا جائے تو انسان کئی ایک قباحتوں سے محفوظ رہتا ہے، اگر چہ شادی ہال میں نکاح کا اہتمام بھی جائز ہے۔(واللہ اعلم)
{📚فتاویٰ اصحاب الحدیث تالیف ابو محمد حافظ عبد الستار الحماد: ج3 ص347-348}.
عقد نکاح اور مسجد کی مناسبت
نوٹ📝: بعض علماء کرام نے عقد نکاح کو عبادت کے مشابہ قرار دیتے ہوئے مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دیا ہے مثلاً:
امام ابن تیمیہ (م٧٢٨هـ) نے کہا: ✍🏻«وَلِأَنَّ النِّكَاحَ فِيهِ شَوْبُ الْعِبَادَاتِ. وَيُسْتَحَبُّ عَقْدُهُ فِي الْمَسَاجِدِ». مفہوم: ✍🏻«اور بے شک نکاح میں عبادت کی آمیزش ہے لہٰذا نکاح کو مسجد میں منعقد کرنا مستحب ہے»۔
{📚مجموع الفتاوى: ج٣٢ ص١٨}.
اس طرح امام ابن قیم (م٧٥١هـ) نے کہا: ✍🏻«أَنَّ عَقْدَ النِّكَاحِ يُشْبِهُ الْعِبَادَاتِ فِي نَفْسِهِ، بَلْ هُوَ مُقَدَّمٌ عَلَى نَقْلِهَا، وَلِهَذَا يُسْتَحَبُّ عَقْدُهُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَيَنْهَى عَنْ الْبَيْعِ فِيهَا». مفہوم: ✍🏻«عقد نکاح فی نفسہ مشابہ عبادت ہے بلکہ نفلی عبادتوں پر مقدم ہے، اسی لیے مسجدوں میں نکاح منعقد کرنا مستحب ہوگا۔ یاد رہے مسجدوں میں تجارت کرنے سے منع کیا گیا ہے»۔
{📚إعلام الموقعين عن رب العالمين: ج٣ ص١٠٢ بتحقيق محمد عبد السلام إبراهيم، دوسرا نسخه: ج٣ ص٦٢١-٦٢٢ بتحقيق محمد عزير شمس، تيسرا نسخه: ج٤ ص٥٤٢ بتحقيق أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان}.
نوٹ📝: ان کے علاوہ اور بھی علماء کرام نے یہی کہا ہے۔
چند غلط فہمیاں اور ان کا ازالہ
📌غلط فہمی⚠📌
بعض الناس نے مسجد میں نکاح منعقد کرنے کو مطلق طور پر ناجائز اور بدعت کہا ہے۔ یعنی کسی بھی طور پر مسجد میں نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ اس موقف کے حاملین کے پاس کوئی دلیل تو نہیں ہے البتہ اپنے طور پر انھوں نے کچھ بودے اعتراضات کو دلائل کا درجہ دے رکھا ہے وہ حسب ذیل ہیں:
(1): کتاب و سنت میں مسجد میں عقدِ نکاح کا ثبوت نہیں ملتا۔🛑
(2): غیر مسلم شادیاں اپنے اپنے عبادت خانوں میں سرانجام دیتے ہیں اور ہم اگر اپنی عبادت کی جگہ نکاح کرتے ہیں تو ان کی مشابہت ہوتی ہے۔🛑
(3): مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ مساجد ذکرِ الہی، نماز، تلاوت قرآن کے لئے ہے۔ نکاح مسجد میں منعقد کرنا، مساجد کے قیام کے مقاصد میں سے نہیں ہے۔🛑
(4): جو لوگ مسجد میں نکاح منعقد کرتے ہیں انہیں سے دریافت کرلیں آپ کو اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ملے گی جو مسجد میں نکاح کرنے کو ثواب سمجھتے ہیں لہٰذا اگر آپ اسے مباح کہیں گے تو آپ بھی اہل بدعت کے معاون ہو جائیں گے۔🛑
ان اعتراضات کا جائزہ
ازالہ➕: یہ اعتراضات کمزور اور بہت بعید ہیں۔
ان شاء اللہ تعالیٰ ان اعتراضات کو ذکر کرتے ہوئے ان کی حقیقت کو واضح کریں گے۔
اعتراض 1
کتاب و سنت میں مسجد میں عقدِ نکاح کا ثبوت نہیں ملتا۔
ازالہ➕: تو عرض ہے کہ جن علماء کرام نے مسجد میں عقدِ نکاح کو مباح قرار دیا ہے، ان کی دلیل اصول فقہ کے اس مشہور قاعدے کے موافق ہے جیسا کہ: ✍🏻«اَلْأَصْلُ فِي الْأَشْيَاءِ الْإِبَاحَةُ». مفہوم: ✍🏻«اشیاء میں اصل اباحت ہے»۔ یعنی جن چیزوں کے متعلق حرمت یا ممانعت کی کوئی دلیل شرعی نہ ہو انھیں مباح قرار دیا جائے گا۔ نیز مفسرِ القرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ✍🏻«كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَأْكُلُونَ أَشْيَاءَ وَيَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا، فَبَعَثَ اللّٰهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ، صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ، وَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلَالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ "فَهُوَ عَفْوٌ” وَتَلَا «قُلْ لَا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا». إِلَى آخِرِ الْآيَةِ». مفہوم: ✍🏻«زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں کو کھاتے تھے اور بعض چیزوں کو ناپسندیدہ سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا، اپنی کتاب نازل کی اور حلال و حرام کو بیان فرمایا، تو جو چیز اللہ نے حلال کر دی وہ حلال ہے اور جو چیز حرام کر دی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے، پھر ابن عباس نے آیت کریمہ: «قُلْ لَا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا». یعنی: «آپ کہہ دیجئیے میں اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا»۔ اخیر تک پڑھی»۔
{📚سنن أبو داود: ح٣٨٠٠ "وإسناده صحيح”}.
فائدہ➕: اس حدیث میں مفسرِ القرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بات بیان فرمائی کے جو حلال ہے تو وہ حلال ہے اور جو حرام ہے تو وہ حرام ہے اور جن اشیاء پر شریعت خاموش ہے یعنی دین اسلام میں گنجائش ہے۔ اس حدیث میں مذکور ان الفاظ «فَهُوَ عَفْوٌ» یعنی: «وہ معاف ہے»۔ کی شرح میں محدث العصر ابو الطیب شمس الحق العظیم آبادی (م١٣٢٩هـ) نے کہا: ✍🏻«أَيْ مُتَجَاوَزٌ عَنْهُ لا تؤاخذون به». مفہوم: ✍🏻«ایسی اشیاء جس پر چشم پوشی کی گئی ہو اور جس پر مؤاخذہ نہیں لیا جائے گا»۔
{📚عون المعبود شرح سنن أبي داود: ج٥ ص٤٧٧، دوسرا نسخه: ج١٠ ص١٩٥ الطبعة دار الكتب العلمية}. لہذا ایسی چیزوں کے بارے میں حیل وحجت سے خود کو بچانا ہی بہتر ہے۔ جس طرح کسی ضرورت کے تحت مسجد میں کھانا، پینا اور لیٹنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ عمل بھی جائز ومباح ہے۔
اعتراض 2
غیر مسلم شادیاں اپنے اپنے عبادت خانوں میں سرانجام دیتے ہیں اور ہم اگر اپنی عبادت کی جگہ نکاح کرتے ہیں تو ان کی مشابہت ہوتی ہے۔
ازالہ➕: تو اس پر عرض ہے کہ مشابہت تو تب ہوگی جب ہم کفار کے عبادت خانوں میں جاکر اپنا نکاح کریں۔ ان کی عبادت خانے شرک و کفر کے مرکز ہیں اور ہمارے مساجد توحید کے لئے خاص ہوتے ہیں۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔ پھر مزید ان کے شادیوں کا طریقہ الگ ہے اور ہماری شریعت میں عقد نکاح کا طریقہ کچھ اور ہے۔ اور اگر یہ عمل سے کفار کی مشابہت لازم آتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز ان کا نکاح مسجد میں نہ کرواتے۔ (جیسا کہ اوپر گزر چکا)
شیخ محمد بن صالح عثیمین (م١٤٢١هـ) سے سوال کیا گیا ہے کہ: ✍🏻«بعضهم يشابه في ذلك النصارى حيث يعقدون النكاح في الكنائس؟». مفہوم: ✍🏻«بعض لوگ مسجد میں ہونے والے نکاح کو نصاریٰ کے گرجا گھروں میں ہونے والے عمل سے تشبیہ دیتے ہیں»۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین (م١٤٢١هـ) نے اس سوال کے جواب میں کہا: ✍🏻
«لا، هذا ليس على بالهم إطلاقاً، حتى العلماء الذين استحبوه استحباب علماء من علماء الشريعة ليس لهم دليل، لكن قالوا: إن "أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللّٰهِ مَسَاجِدُهَا”. وهذا بيت اللّٰه وينبغي أن يكون عقد النكاح فيه، لكن هذا التعليل إذا لم يكن فيه سنة خاصة، بحيث إن الرسول يذهب إلى المسجد ويعقد النكاح هناك، فإنه لا ينبغي أن يقال: إنه مستحب»
.
مفہوم: ✍🏻«نہیں، ان کا حال مطلقاً ایسا نہیں ہے، حتی کہ علماء نے اسے مستحب قرار دیا ہے اور وہ شریعت کے جانکار ہیں جن علماء نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ اگرچہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے۔ «اللہ کے نزدیک سب سے محبوب زمین مسجدیں ہیں»۔ اور یہ اللہ کا گھر ہے اور اس میں عقد نکاح جائز ہے۔ لیکن علت یہ ہے کہ اس میں کوئی خاص سنت نہیں ہے، اس اعتبار سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد گئے اور وہاں نکاح کو منعقد کیا۔ تو بیشک یوں نہ کہا جائے کہ: مسجد میں نکاح کرنا مستحب ہے»۔
{📚لقاء الباب المفتوح: تفسير آيات من سورة النجم: الأسئلة: حكم عقد النكاح في المسجد: ١٦٧، ١٧}.
اعتراض 3
مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ مساجد ذکرِ الہی، نماز، تلاوت قرآن کے لئے ہے۔ نکاح مسجد میں منعقد کرنا، مساجد کے قیام کے مقاصد میں سے نہیں ہے۔
ازالہ➕: تو عرض ہے کہ یہ تو اصل مقاصد میں سے ہیں۔ ہم مسجد میں نکاح کرنے کو سنت یا مستحب نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اسے ضرورت کے تحت جواز کی حد تک درست کہہ رہے ہیں۔ اس پر کئی مثالیں دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ مسجد میں روزہ افطار کرنا، کھانا کھانا، لیٹنا وغیرہ جس طرح یہ جائز امور میں سے ہے اسی طرح مسجد میں نکاح کرنا بھی جائز امور میں سے ہے۔
اعتراض 4
جو لوگ مسجد میں نکاح منعقد کرتے ہیں انہیں سے دریافت کرلیں آپ کو اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ملے گی جو مسجد میں نکاح کرنے کو ثواب سمجھتے ہیں لہٰذا اگر آپ اسے مباح کہیں گے تو آپ بھی اہل بدعت کے معاون ہو جائیں گے۔
ازالہ➕: تو عرض ہے کہ کیا وہ تمام علماء کرام اہل بدعت کے معاونین ہیں جنہوں نے مسجد میں نکاح کرنے کو مباح قرار دیا ہے؟ نہیں بالکل بھی نہیں بلکہ علماء کرام عوام کی ہر وقت دین اسلام میں رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے خود ساختہ عقائد و نظریات کو دلائل سے رد کرتے ہوئے ان کی اصلاح و تزکیہ نفس کرتے ہیں اور ان کی عین اسلام کے مطابق تربیت کرنے کی ہر وہ ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ثواب کی نیت سے مسجد میں نکاح کرتا ہے تو اسے سمجھایا جائے گا اور ہمارا اصل مقصد ہے ہی یہی کہ لوگوں تک صحیح علم پہنچے اور وہ اپنی اصلاح کرلیں رہا مسئلہ نیت کا تو ہر شخص کو اسی کی نیت کے مطابق ملے گا جیسا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ✍🏻«إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى». مفہوم: ✍🏻«تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا»۔
{📚صحيح البخاري: ح١، وح٥٤، وح٢٥٢٩}.
شیخ محمد ناصر الدین البانی (م١٤٢٠هـ) کے فتوے کی غلط تعبیر
بعض الناس نے شیخ محمد ناصر الدین البانی (م١٤٢٠هـ) کے دیے گئے فتوے کو لے کر بھی اپنی غلط فہمی کی بنیاد پر یہ شور مچاتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ شیخ البانی (م١٤٢٠هـ) نے مسجد میں عقد نکاح کو بدعت کہا ہے۔ حالانکہ جو سوال شیخ البانی (م١٤٢٠هـ) سے ہوا ہے وہ عرس یعنی شادی کے بارے میں ہے نہ کہ عقد نکاح کے بارے میں۔
فتویٰ درج ذیل منقول ہے: شیخ محمد ناصر الدین البانی (م١٤٢٠هـ) سے سوال کیا گیا کہ: ✍🏻«ما حكم إقامة العرس في المسجد؟». مفہوم: ✍🏻«مساجد میں عرس (شادی) کرنے کا کیا حکم ہے؟»
شیخ محمد ناصر الدین البانی (م١٤٢٠هـ) نے جواب میں کہا: ✍🏻«بدعة». یعنی: ✍🏻«ایسا کرنا بدعت ہے»۔
{📚سلسلة الهدى والنور: ١٣٢}.
سائل کے سوال پر اگر غور کیا جائے تو مسئلہ خود بخود سمجھ میں آجائے کہ شیخ البانی (م١٤٢٠هـ) نے عرس کو مسجد میں منعقد کرنے کو بدعت کہا ہے نہ کہ عقد نکاح کو۔
➕عرس و نکاح کا معنیٰ ومفھوم:
"📚القاموس الوحید: ص1065” میں "العرس” «زفاف، رخصتی، شادی، برات، ولیمہ کا کھانا، دعوت ولیمہ»۔ عرس کے اندر یہ تمام معنی شامل ہیں۔
جبکہ نکاح میں یہ معانی شامل نہیں ہیں بلکہ "نكاح” «عقد بين رجل وامرأة على وجه مشروع وبشروط مخصوصة». مفہوم: «شرعی قوانین کے ساتھ مرد اور عورت کا ایک ہونا نکاح ہے»۔
حاصل کلام
خلاصہ: مسجد میں نکاح کرنا مباح ہے۔ البتہ سنت و مستحب اور ثواب کی نیت سے مسجد میں نکاح کرنے کو علماء کرام نے بدعت قرار دیا ہے اور یہی درست ہے اگر کوئی اس طرح کا نظریہ نہیں رکھتا ہے تو پھر مسجد میں نکاح کرنا مباح ہے۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ۔۔۔۔ہم نے تو دیا جلا کے سر عام رکھ دیا
وما علینا الاالبلاغ۔
آپ لوگوں کی دعاؤں کے طلب گار "سَبِیْلُ الْمُؤْمِنِيْن فاؤنڈیشن کی ٹیم”۔