سلام عام کرنے کا شرعی حکم اور اس کے متعلق مسائل
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص171

سوال:

یہ ایک رسالہ ہے جس کا میں نے نام رکھا ہے "الحوار التام فی مسئلۃ افشاء السلام بین الأنام”۔ ہم اس مسئلے کے متعلق کیا کہتے ہیں؟

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سلام عام کرنے کا حکم اور اس کی اہمیت:

بھائی محمد حسن کنری نے سلام عام کرنے کے بارے میں فتویٰ پوچھا تو میں نے دلائل کے ساتھ مختصر فتویٰ لکھا۔ یہ فتویٰ کنری میں منصف قضاء پر فائز ایک عالم کے پاس پیش کیا گیا، مگر انہوں نے صرف ایک حدیث پر کمزور اور احتمالی جواب دیا اور مذکورہ صحیح اور صریح احادیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا۔

حالانکہ نسخ صرف احتمال سے ثابت نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لیے درج ذیل تین شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے:

◄ ناسخ کا منسوخ سے متاخر ہونا ثابت ہو۔
◄ ناسخ حدیث، منسوخ حدیث سے قوی تر ہو یا کم از کم اس کے ہم پلہ ہو۔
◄ ناسخ و منسوخ میں کسی بھی طرح تطبیق ممکن نہ ہو۔

لہٰذا میں نے اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ اس کے بہت سے فوائد ہیں، اور لوگ اس مسئلے میں غفلت برتتے ہیں۔

نمازی، ذاکر، تلاوت کرنے والے، مؤذن اور دیگر افراد پر سلام کہنے کا حکم:

◄ نمازی کو سلام کہنا مسنون ہے، اور وہ اشارے سے اس کا جواب دے سکتا ہے۔
◄ ذاکر، تلاوت کرنے والے، مؤذن، عورتوں اور کھانے میں مصروف لوگوں سمیت تمام مسلمانوں پر سلام کرنا جائز ہے، سوائے ان چند افراد کے جن پر سنت کی رو سے سلام نہ کہنے کا ذکر آیا ہے۔
◄ یہ حکم عمومی دلائل اور خاص دلائل سے ثابت ہوتا ہے۔

سلام عام کرنے کے عمومی دلائل

1. مومنوں کے درمیان محبت کا ذریعہ:

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ، اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوگا جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جسے اگر تم اختیار کرو تو تمہارے درمیان محبت پیدا ہو؟ وہ یہ کہ آپس میں سلام عام کرو۔”
(صحیح مسلم 93، مشکوٰۃ 2/397، ترمذی 2/98)

2. سلام کے ذریعے خیر اور برکت حاصل ہوتی ہے:

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا:
◄ بیمار کی عیادت
◄ جنازوں کے ساتھ جانا
◄ چھینکنے والے کو جواب دینا
◄ کمزور کی مدد کرنا
◄ سلام عام کرنا
◄ قسم پوری کرنا
◄ مظلوم کی مدد کرنا
(صحیح بخاری 2/921، صحیح مسلم 2/123، مشکوٰۃ 2/397)

نمازی پر سلام کہنے کے خاص دلائل

1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل:

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباء کی طرف نماز پڑھنے نکلے، آپ نماز میں تھے، اور انصار آئے اور آپ کو سلام کہا۔ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے کیسے جواب دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا۔”
(سنن ابوداود 927، ابن ماجہ 1017، مشکوۃ 1/92، بیہقی 2/187، ترمذی 1/367)

2. دیگر احادیث:

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ نے میری طرف اشارہ فرمایا۔”
(صحیح مسلم 204، سنن ابن ماجہ 18، سنن ابوداود 926)

صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے سلام کہا تو آپ نے اشارے سے جواب دیا۔”
(ابوداود 925، ترمذی 1/367، احمد 4/332، مشکوۃ 1/91)

کن لوگوں پر سلام نہیں کہا جائے گا

1. کافر:

"السلام علی من اتبع الہدیٰ” کہا جائے گا۔
(صحیح بخاری 1/5، ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث)

2. فاسق اور مبتدع:

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیکاٹ کے دوران سلام لینا ترک کر دیا تھا۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

3. پیشاب کرنے والا:

ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشاب کی حالت میں سلام کہا، آپ نے بعد میں وضو کے بعد جواب دیا۔
(صحیح بخاری، مشکوۃ 1/55)

نتیجہ:

◄ سلام عام کرنا سنت ہے، اور اس میں کسی تخصیص کی ضرورت نہیں جب تک کہ کوئی مضبوط دلیل موجود نہ ہو۔
◄ نمازی، ذاکر، تلاوت کرنے والے، مؤذن، عورتوں، بچوں اور کھانے والے پر سلام کہنا جائز ہے۔
◄ بعض مخصوص افراد پر سلام سے روکا گیا ہے، جیسے کافر، فاسق، مبتدع اور پیشاب کرنے والا۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1