سوال:
اگر ایک ہی نماز کے لیے دوسری جماعت قائم کی جائے تو کیا دوبارہ تکبیر کہنی چاہیے، یا پہلی تکبیر ہی کافی ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دوسری مرتبہ اذان دی جائے تو تکبیر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا یہ بات درست ہے؟ برائے کرم صحیح مسئلہ واضح کریں۔
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کے بارے میں کوئی مرفوع صریح حدیث میرے علم میں نہیں ہے، تاہم بعض صحابہ اور تابعین کے آثار سے رہنمائی ملتی ہے۔
صحابہ کرام کے آثار
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ایک مرتبہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں پہنچے جہاں لوگ پہلے ہی جماعت سے نماز ادا کر چکے تھے۔ انہوں نے وہاں دوبارہ اذان اور اقامت کہلوائی اور نماز ادا کی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/221، حدیث 2298، السنن الکبریٰ للبیہقی 1/407، 3/70، تغلیق التعلیق 2/676-677)
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب فصل صلاة الجماعة قبل حدیث 645 میں اس روایت کو تعلیقاً ذکر کیا ہے۔
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس سے دوبارہ اذان و اقامت کے جواز کا ثبوت ملتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
انہوں نے اپنے گھر میں تابعین اسود اور علقمہ کو نماز پڑھائی لیکن اذان یا اقامت کا حکم نہیں دیا۔
(صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب الندب الی وضع الأيدي على الركب في الركوع، حدیث 534)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر اذان و اقامت کے بھی جماعت کی نماز درست ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
انہوں نے فرمایا:
"إذا كنت في قرية يؤذّن فيه ويقام أجزأك ذلك”
"اگر تم کسی ایسے گاؤں میں ہو جہاں اذان و اقامت ہو چکی ہو، تو وہی تمہارے لیے کافی ہے۔”
(کتاب المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفارسی 2/209، سند صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی 1/406)
جہاں اقامت ہو چکی ہوتی، وہاں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دوبارہ اقامت نہیں کہتے تھے۔
(کتاب المعرفۃ والتاریخ 2/209، سند حسن، السنن الکبریٰ للبیہقی 1/406)
حکمِ شرعی:
ان روایات کی روشنی میں دونوں طریقے جائز ہیں:
◄ اگر دوبارہ جماعت کی جا رہی ہو تو اذان و اقامت دی جا سکتی ہے، اور نہ دی جائے تب بھی نماز درست ہے۔
◄ اگر فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو، تو بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان و اقامت کہنا بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
(شہادت، جولائی 2003ء، اکتوبر 2000ء)