سوال:
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ "جب کھانا رکھا جائے تو جوتے اتار لیا کرو، اس میں تمہارے قدموں کی راحت ہے”؟ یہ حدیث ہے یا محض ایک مقولہ؟ اگر حدیث ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟
(آپ کا بھائی: ابو سلمان حضرت محمد)
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے:
◈ ابو عبس بن جبیر رضی اللہ عنہ
◈ انس بن مالک رضی اللہ عنہ
◈ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ
مختلف اسناد کے ساتھ اس حدیث کا درجہ اور اس کی تفصیل درج ذیل ہے
پہلی روایت: حضرت ابو عبس رضی اللہ عنہ کی حدیث
📖 امام حاکم نے یہ حدیث روایت کی ہے:
"کھانا کھاتے وقت جوتے اتار لیا کرو، یہ اچھا طریقہ ہے۔”
📖 (کنز العمال، حدیث 40725، جلد 15، ص 335)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "موضوع” (من گھڑت) قرار دیا ہے۔
📖 (ضعیف الجامع الصغیر، حدیث 243)
دوسری روایت: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث
📖 یہ حدیث دو مختلف سندوں سے مروی ہے:
پہلی سند:
📖 ابو یعلی
(3/1036)
اور بزار
(حدیث 159)
نے یہ حدیث روایت کی ہے:
"جب تم میں سے کسی کے سامنے کھانا رکھا جائے اور اس کے پیروں میں جوتے ہوں تو انہیں اتار دے، اس میں قدموں کے لیے زیادہ راحت ہے اور یہ سنت ہے۔”
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ
(مجمع الزوائد، 5/23)
نے اس پر سکوت اختیار کیا، لیکن اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ:
◈ معاذ بن شعبہ مجہول راوی ہیں۔
◈ داؤد بن برقان کو امام ابو داؤد نے "متروک” (چھوڑا ہوا راوی) کہا ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے "مقارب” (کمزور راوی) قرار دیا ہے۔
دوسری سند:
📖 دارمی
(2/32، حدیث 2086)
اور حاکم
(4/119)
نے محمد بن سعید کے ذریعے یہ حدیث نقل کی ہے:
"جب کھانے کے وقت جوتے اتار لیے جائیں تو یہ قدموں کے لیے زیادہ راحت بخش ہوتا ہے۔”
یہ حدیث بھی سخت ضعیف ہے، کیونکہ:
◈ موسیٰ بن محمد بن ابراہیم الحارث "متروک” راوی ہیں۔
◈ امام بخاری اور دارقطنی نے انہیں ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔
◈ امام ذھبی رحمہ اللہ نے کہا:
"میرے خیال میں یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے۔”
📖 (السلسلة الضعيفة، 2/411، حدیث 98؛ ضعیف الجامع، حدیث 396)
تیسری روایت: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث
📖 ابن حجر رحمہ اللہ نے "المطالب العالیہ”
(2/318، حدیث 2362)
میں اس حدیث کو ذکر کیا:
"جب تم کھانے کے وقت ہو تو جوتے اتار لیا کرو، اس میں قدموں کے لیے زیادہ راحت ہے۔”
ابو خیثمہ نے عقبہ کے واسطے سے اس حدیث کو روایت کیا، لیکن ابو یعلی کے محقق حبیب الرحمن رحمہ اللہ نے کہا:
"شاید ابو یعلی کی سند میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کوئی کمی ہے، کیونکہ وہاں یہ روایت مکمل موجود نہیں ہے۔”
اس بنا پر، یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
نتیجہ:
✔ اس حدیث کی تمام روایات ضعیف یا موضوع (من گھڑت) ہیں، لہٰذا اسے نبی کریم ﷺ سے منسوب کرنا درست نہیں۔
✔ اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن یہ ایک اچھا عمل ہے، کیونکہ کھانے کے وقت جوتے اتارنا جسم کے لیے سکون اور آرام دہ ہو سکتا ہے۔
✔ چونکہ یہ فضائلِ اعمال اور آداب سے متعلق ہے، اس لیے بعض اہلِ علم نے اس میں نرمی برتی ہے۔
✔ تاہم، اسے نبی کریم ﷺ کی طرف نسبت کر کے بطور حدیث بیان کرنا درست نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔