بند مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1۔ كتاب المساجد۔صفحہ238

سوال:

ہمارے گاؤں کے ساتھ ایک اور گاؤں ہے، جہاں ایک پرانی مسجد موجود ہے۔ اب گاؤں کے لوگوں نے نئی مسجد تعمیر کر لی ہے، جس کی وجہ سے پرانی مسجد بالکل بند پڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس پرانی مسجد کو سکول میں تبدیل کر سکتے ہیں یا اس کی عمارت کو گرا کر عید گاہ بنا سکتے ہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کا شرعی حکم بیان کریں۔

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بہتر یہی ہے کہ مسجد کو تبدیل نہ کیا جائے بلکہ اسے آباد کیا جائے۔ تاہم، اگر گاؤں کے صحیح العقیدہ لوگ متفقہ طور پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مسجد کو عید گاہ میں تبدیل کر دیا جائے، تو حافظ عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دلیل:

حافظ عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے میں درج ذیل دلائل پیش کیے ہیں:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے ایک مسجد کا کچھ حصہ راستے میں شامل کر کے اسے وسیع کر دیا تھا۔
ملاحظہ ہو: فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (فتاویٰ اہل حدیث، ج 1، ص 349)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک جامع مسجد کو کھجوروں کے تاجروں کے ساتھ بدل دیا اور دوسری جگہ لے گئے، جس کے بعد وہاں بازار قائم ہو گیا۔
ملاحظہ ہو: (ایضاً)

دوسری رائے:

اس کے برعکس، بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ جس جگہ ایک بار مسجد بن جائے، اسے قیامت تک تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
ملاحظہ ہو: (شہادت، جولائی 1999ء)

واللہ اعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1