سوال:
کیا عبد الرسول اور عبد النبی جیسے نام رکھنا جائز، مباح یا مکروہ ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حولا ولا قوة إلا بالله۔
یہ شرکیہ نام ہیں اور جائز نہیں۔
قرآن مجید سے دلیل
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّـهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّـهِ وَلـٰكِن كونوا رَبّـٰنِيّـۧنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتـٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُسونَ﴾
"کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ اسے کتاب، حکمت اور نبوت عطا کرے، پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ (وہ یہ کہے گا کہ) تم ربانی بن جاؤ، کیونکہ تم کتاب سکھاتے اور اس کا درس دیتے ہو۔”
(سورۃ آل عمران: 79)
توضیح:
◈ انبیاء کرام علیہ السلام نے لوگوں کو اپنی بندگی کی دعوت نہیں دی، بلکہ اللہ کی بندگی کا حکم دیا۔
◈ اسی لیے "عبد النبی” یا "عبد الرسول” جیسے نام رکھنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں نبی کی غلامی کا تصور شامل ہو جاتا ہے، جو خلافِ توحید ہے۔
عربی زبان کے اصول اور شرعی ممانعت
◈ عربی زبان میں "عبد” (غلام، بندہ) کا مطلب ملکیت (یعنی کسی کا غلام ہونا) ہے۔
◈ خادم کو عربی میں "عبد” نہیں کہا جاتا۔
◈ یہ مشتبہ الفاظ ہیں، جنہیں چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقولوا رٰعِنا وَقولُوا انظُرنا﴾
"اے ایمان والو! (نبی سے) ‘رَاعِنَا’ نہ کہا کرو بلکہ ‘انظُرْنَا’ کہا کرو۔”
(سورۃ البقرہ: 104)
حدیث سے دلیل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"لا يقولَنَّ أَحَدُكُمْ عَبْدِي وَأَمَتِي، كُلُّكُمْ عَبِيدُ اللَّهِ وَكُلُّ نِسَائِكُمْ إِمَاءُ اللَّهِ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: غُلامِي وَجَارِيَتِي وَفَتَايَ وَفَتَاتِي، وَلا يَقُلِ العَبْدُ سَيِّدِي، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: مَوْلايَ”
"تم میں سے کوئی بھی (اپنے خادم کو) ‘میرا بندہ’ اور (اپنی خادمہ کو) ‘میری لونڈی’ نہ کہے، کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمہاری تمام عورتیں اللہ کی باندیاں ہیں۔ بلکہ یوں کہے: ‘میرا غلام’، ‘میری خادمہ’، ‘میرا نوجوان لڑکا’ اور ‘میری نوجوان لڑکی’، اور بندہ (اپنے آقا کو) ‘میرا سردار’ نہ کہے، بلکہ ‘میرا مولیٰ’ کہے۔”
(صحیح مسلم: 238، مشکوٰۃ: 2/407)
توضیح:
◈ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ کسی مخلوق کی طرف بندگی منسوب کرنا ممنوع ہے۔
◈ اسی لیے "عبد النبی” یا "عبد الرسول” کہنا بھی جائز نہیں۔
فقہاء کرام کی آراء
◈ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نبی بخش، مدار بخش جیسے نام موہم شرک ہیں، انہیں بدلنا واجب ہے۔”
(فتاویٰ رشیدیہ: ص 69)
◈ "اگر کوئی شخص "عبد النبی” نام رکھے اور اس کا عقیدہ بھی یہی ہو، تو وہ مشرک ہے۔ اگر عقیدہ نہ ہو، تب بھی یہ معصیت (نافرمانی) ہے اور اس سے اجتناب فرض ہے۔”
(فتاویٰ رشیدیہ: ص 72)
◈ علامہ خرم رحمہ اللہ (المتوفی 1238ھ) اپنی کتاب "نصیحة المسلمین” (ص 24) میں لکھتے ہیں:
"نبی بخش، سالار بخش، عبد النبی، بندہ علی، بندہ حسین جیسے نام رکھنا حرام اور شریعت میں ناجائز ہے۔”
◈ امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عبد النبی اور عبد الکعبہ نام رکھنا حرام ہے۔”
(شرح منہاج)
◈ "مرقات” (9/106) میں لکھا ہے:
"عبد الحارث اور عبد النبی جیسے نام رکھنا جائز نہیں، چاہے لوگوں میں یہ عام ہو۔”
◈ "شرح فقہ اکبر” (ص 238) میں لکھا ہے:
"عبد النبی نام رکھنا بظاہر کفر ہے، اگر عبد (بندہ) سے غلام مراد لیا جائے۔”
◈ "رد المختار” (5/268) میں لکھا ہے:
"عبد فلاں سے یہی اخذ کیا جائے گا کہ عبد النبی نام رکھنا منع ہے۔”
نتیجہ
✔ "عبد النبی” اور "عبد الرسول” جیسے نام رکھنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں مخلوق کی بندگی کا تصور آتا ہے۔
✔ قرآن و حدیث اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق، ایسے نام رکھنا حرام اور ممنوع ہے۔
✔ اگر کسی نے ایسا نام رکھا ہو، تو اسے تبدیل کرنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب