نبی کریم ﷺ کے بیت الخلاء میں انگوٹھی اتارنے کی روایت کا حکم
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1، كتاب العقائد، صفحہ 198

سوال:

کیا یہ روایت صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو اپنی انگوٹھی، جس پر "محمد رسول اللہ” لکھا ہوا تھا، اتار دیتے تھے؟

الجواب:

الحمدللہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

روایت کی سند اور حکم

یہ روایت درج ذیل سند سے مروی ہے:

"عن همام عن ابن جريج عن الزهري عن أنس رضي الله تعاليٰ عنه” (سنن ابی داود: حدیث 19، وقال: "ھذا حدیث منکر”، سنن الترمذی: حدیث 1746، وقال: "ھذا حدیث حسن صحیح غریب”، الشمائل للترمذی: 93، سنن النسائی 8/178، حدیث 5616، سنن ابن ماجہ: حدیث 303، السنن الکبری للبیہقی 1/95، وقال: "وھذا شاھد ضعیف واللہ اعلم”)

روایت کے ضعف کی وجوہات

➊ ابن جریج مشہور مدلس ہیں

● ابن جریج کا تدلیس کرنا ثابت ہے، اور وہ اپنی روایات میں "عن” (عنہم، عنہ) کہہ کر روایت کرتے ہیں، جو کہ تدلیس کی علامت ہوتی ہے۔
● مدلس راوی کی "عن” والی روایت غیر صحیحین میں ضعیف ہوتی ہے، جب تک کہ سماع کی تصریح نہ مل جائے۔

➋ ابن جریج کی تدلیس کے حوالے سے محدثین کی آراء:

طبقات المدلسین (3/83)
تقریب التہذیب (4193)
جامع التحصیل (ص 108)
کتاب المدلسین لابی زرعۃ ابن العراقی (ص 40)
المدلسین للسیوطی (ص 36)
سوالات الحاکم النیسابوری للدارقطنی (ص 265)
علل الحدیث لابن ابی حاتم (حدیث 2078)
سوالات البرزعی (ص 743، قول ابی مسعود احمد بن الفرات)

➌ ابن جریج کے سماع کی تصریح موجود نہیں

● اگر کوئی شخص اس روایت میں ابن جریج کے سماع کی تصریح پیش کر دے، تو اس کی تصحیح ممکن ہو سکتی ہے۔
● لیکن جب تک سماع کی تصریح موجود نہ ہو، یہ روایت ضعیف ہی شمار ہوگی۔

➍ امام ترمذی اور حافظ منذری کی تصحیح کا اشکال

● امام ترمذی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو "حسن صحیح غریب” کہنا قابلِ اشکال ہے، کیونکہ روایت میں ابن جریج کی تدلیس موجود ہے۔
● حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو "رواتہ ثقات اثبات” کہہ کر صحیح قرار دیا، جو ناقابلِ فہم ہے، کیونکہ تدلیس کی موجودگی میں سماع کی تصریح کے بغیر تصحیح ممکن نہیں۔

نتیجہ:

● یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ابن جریج مدلس کی عن والی روایت موجود ہے اور سماع کی تصریح نہیں ملتی۔
● جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ ہو، اس روایت سے استدلال کرنا درست نہیں۔
● نبی کریم کے بیت الخلاء جاتے وقت انگوٹھی اتارنے کا عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1