لحد اور سیدھی قبر کے احکام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

سیدھی قبر میں کوئی حرج نہیں لیکن لحد زیادہ بہتر ہے
لفظ ضرح کا معنی ”پھاڑنا اور میت کے لیے سیدھی قبر بنانا“ ہے اور یہ باب ضَرَحَ يَفْرَحُ (منع) سے مصدر ہے۔ اور ضرح کو ”شق“ بھی کہا جاتا ہے۔
[المنجد: ص/ 496 ، نيل الأوطار: 27/3]
لفظ ”لحد“ سے مراد ”بغلی قبر کھودنا“ ہے۔ (یعنی قبر کے قبلہ رخ گھڑے کو لحد کہتے ہیں جہاں سے میت کو قبر میں اتارا جاتا ہے ) یہ بھی باب لَحَدَ يَلْحَدُ (منع) سے مصدر ہے۔
[المنجد: ص/ 782]
(بخاریؒ) فرماتے ہیں کہ بغلی قبر کو ”لحد“ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ایک کونے میں ہوتی ہے اور اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہر چیز کو ملحد کہیں گے اسی سے لفظ ”ملتحدا“ ہے یعنی پناہ کا کونہ ۔ اور اگر قبر سیدھی ہو تو اسے ”ضریح“ کہتے ہیں۔
[بخارى: قبل الحديث: 1347 ، كتاب الجنائز: باب من يقدم فى اللحد]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے:
كان بالمدينة رجل يلحد وآخر يضرح
مدينہ میں ایک آدمی بغلی قبر بناتا تھا اور دوسرا سیدھی قبر بناتا تھا۔“ لوگوں نے کہا کہ ہم استخارہ کرتے ہیں اور ان دونوں کی طرف آدمی بھیج دیتے ہیں ان میں سے جو بھی پیچھے رہ گیا ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ پھر ان دونوں کی طرف پیغام بھیج دیا گیا تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آن پہنچا:
فلحدو النبى صلى الله عليه وسلم
”لٰہذا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبر بنائی ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1264 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء فى الشق ، ابن ماجة: 1557 ، أحمد: 139/3 ، حافظ بوصيريؒ نے اس كي سند كو صحيح كها هے۔ مصباح الزجاجة: 507/1]
مدینہ میں دونوں طرح کی قبر بنانے والے آدمی موجود تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دونوں کو برقرار رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں طرح قبر بنانا جائز ہے۔ لیکن مندرجہ ذیل دلائل کی بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ لحد زیادہ بہتر ہے۔
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللحد لنا والشق لغيرنا
”بغلی قبر ہمارے لیے ہے اور سیدھی قبر دوسروں کے لیے ہے۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1261 – 1262 ، أبو داود: 3208 ، ترمذي: 1045 ، نسائي: 80/4 ، ابن ماجة: 1554]
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر لحد بنائی گئی جیسا کہ ابھی حدیث گزری ہے۔
➌ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: الحلوالي لحدا ”میرے لیے بغلی قبر بنانا“ اور مجھ پر کچی اینٹیں چننا كما صنع برسول الله ”جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا ۔“
[أحمد: 149/1 ، مسلم: 966 ، كتاب الجنائز: باب فى اللحد ونصب اللبن على الميت ، نسائي: 80/4 ، ابن ماجة: 1556]
(نوویؒ) لحد اور شق دونوں کے جواز پر علماء کا جماع ہے۔
[شرح مسلم: 39/4]
(شوکانیؒ ) مذکورہ احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ لحد ، ضرح سے زیادہ بہتر ہے ۔
[نيل الأوطار: 27/3]
(البانیؒ) لحد افضل ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/182]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1