سوال:
کیا مذکورہ تحریر میں عورت کی حکمرانی کو جائز قرار دیا گیا ہے، اور کیا یہ درست ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
عورت صرف عورتوں کی ذمہ دار ہو سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر کوئی بھی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری ایسی نہیں دی جا سکتی، جس میں وہ مرد اور عورت دونوں کی حاکم یا ذمہ دار بنے۔
جب سعودیہ میں یہ سلسلہ شروع ہوا، تو فضیلۃ الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ نے اس پر اعلانیہ نکیر کی اور مقالات تحریر کیے، جن میں سے ایک کا عنوان تھا:
"كارثة أخلاقية أخرى في تولية النساء على الرجال هي أنكى”
(مردوں پر عورتوں کی حکمرانی ایک اور اخلاقی تباہی ہے)
اس میں وہ فرماتے ہیں:
"عورتوں کو ایسے مناصب پر مقرر کرنا، جہاں وہ مردوں کے لیے مرجع بنیں، نہ تو اعتدال ہے اور نہ ہی وسطیت، بلکہ یہ اخلاقی گراوٹ اور انحراف ہے۔ یہ نام نہاد اعتدال اور وسطیت اس ملک (سعودیہ) میں کچھ سال پہلے تک موجود نہیں تھی، اور نہ ہی اس کے جید علماء جیسے کہ شیخ محمد بن ابراہیم، شیخ عبدالعزیز بن باز، اور شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہم اللہ اسے جانتے تھے۔”
"عورتوں کو ایسے مناصب دینا، جہاں وہ مردوں پر حاکم ہوں، غیر شرعی اختلاط کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔ اس کی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین مردوں کی مجالس میں شرکت نہیں کرتی تھیں۔”
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: یا رسول اللہ! مرد آپ کی حدیثیں لے گئے، لہٰذا ہمارے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیں، تاکہ ہم آپ سے سیکھ سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں دن آنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تعلیم دی۔”
(صحیح بخاری: 7310، صحیح مسلم: 6699)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے:
"لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة”
(وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی، جس نے اپنی قیادت عورت کے سپرد کر دی۔)
(صحیح بخاری: 4425)
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"امت کا اجماع ہے کہ عورت امام (حکمران) یا قاضی نہیں بن سکتی، کیونکہ امام کو جہاد کے امور سنبھالنے اور عوام کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے، جبکہ عورت پردہ میں رہنے والی ہے اور اس کے لیے یہ امور مناسب نہیں۔”
(شرح السنہ: 10/77)
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عورت نہ امامتِ کبریٰ (حکومت) کے لیے موزوں ہے، نہ کسی شہر کی گورنر بن سکتی ہے، اور نہ ہی کسی عدالت کی قاضی ہو سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور ان کے بعد کسی نے بھی عورت کو کسی بھی بڑی ذمہ داری پر فائز نہیں کیا۔”
(المغنی: 14/13)
نتیجہ:
اسلامی تعلیمات کے مطابق، عورت ایسی کسی بھی ذمہ داری کی اہل نہیں جس میں وہ مردوں پر حاکم ہو۔ لہٰذا، عورت کو صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ، جج یا کسی بھی بڑے حکومتی منصب پر فائز کرنا شرعی طور پر درست نہیں۔