اللہ کے احکام پر اعتراض کرنے والے کا حکم
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو کہتا ہو چونکہ بعض شرعی احکام جدید تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتے لہٰذا ان پر نظر ثانی اور ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کی مثال وراثت کی تقسیم کے بارے میں شریعت کا یہ معروف اصول ہے کہ مرو کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے ؟
جواب : وہ احکام جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مشروع قرار دیا ہے اور ان کی وضاحت قرآن مجید میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی احادیث مبارکہ میں فرما دی ہے۔ مثلاً احکام وراثت، نماز، روزہ، حج، زکوۃ و دیگر ایسے شرعی احکام جن پر امت کا اجماع ہے تو کسی شخص کو ان پر اعتراض کرنے یا ان میں کمی بیشی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے‘ کیونکہ ایسے احکام شرعیہ عصر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر قیامت تک محکم شرعیت کا حکم رکھتے ہیں۔
ان احکام میں وراثت کے حوالے سے مرد کو عورت پر ترجیع بھی شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس امر کی تصریح فرما دی ہے اور علماء امت کا اس پر اجماع بھی ہے، لہٰذا ایسے احکام پر مکمل اعتقاد اور ایمان کے ساتھ عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ جو شخص ایسے احکام کے برعکس کو موزوں تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ایسے احکام کی مخالفت کو جائز قرار دینے والا بھی کفر کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم پر معترض ہے۔ بناء بریں اولوا الامر کی ذمہ داری ہے کہ معترض کے مسلمان ہونے کی صورت میں اسے توبہ کرنے کے لئے کہیں۔ اگر وہ توبہ سے انکار کرے تو ایسا شخص کفر و ارتداد کی بناء پر واجب القتل ہے کیونکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
من بدل دينهٔ فاقتلوه [صحيح البخاري، مسند احمد 1/ 2، 231/5، سنن ترمذي، سنن أبى داؤد، سنن النسائى و سنن ابن ماجة]
”جو شخص مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔ “
ہم اپنے اور تمام مسلمانوں کے لئے فتنوں کی گمراہیوں اور شریعت مطہرہ کی مخالفت سے سلامتی کے لئے دعاگو ہیں۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے