میت کو ایسا کفن دینا واجب ہے جو اسے چھپالے
حالت احرام میں اپنی سواری سے گر کر جو شخص فوت ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا تھا :
وكفنوه
”اور اسے کفن دو۔“
[بخاري: 1849 ، كتاب الحج: باب المحرم يموت بعرفة ، مسلم: 1206 ، أبو داود: 3238 ، ترمذي: 951 ، ابن ماجة: 3084 ، نسائي: 195/5 ، شرح السنة: 1480]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كفن أحدكم أخاه فليحسن كفنه
”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دینا چاہیے۔“
[مسلم: 943 ، كتاب الجنائز: باب فى تحسين كفن الميت ، أبو داود: 3148 ، نسائي: 33/4 ، أحمد: 295/3]
عمدہ اور اچھا کفن دینے سے مراد یہ ہے کہ کفن کا کپڑا صاف ستھرا ، عمدہ ، وسیع اور اس قدر ہو کہ میت کے جسم کو اچھی طرح ڈھانپ سکے اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ کفن کا کپڑا بہت زیادہ قیمتی ہو ۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: تحفة الأحوذي: 51/3 ، شرح مسلم للنووي: 15/4 ، نيل الأوطار: 686/2 ، أحكام الجنائز للألباني: ص/ 77]
وہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے جسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة
”جس نے کسی مسلمان پر پردہ ڈالا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں پردہ ڈال دیں گے ۔“
[بخاري: 2310 البغا ، كتاب المظالم والغضب: باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه ، مسلم: 2580]
مراد یہ ہے کہ کفن کا انتظام و انصرام میت کے ترکہ سے ہی کیا جائے گا خواہ میت کا ترکہ صرف اس قدر ہی ہو کہ جس سے صرف کفن کا بندوبست ہی کیا جا سکے۔
[أحكام الجنائز للألباني: ص/76]
➊ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے :
فلم يوجد له ما يكفن فيه إلا بردة
”ایک چادر کے سوا ان کی کوئی ایسی چیز نہیں ملی کہ جس میں انہیں کفن دیا جا سکے ۔ “
اور حضرت حمزه رضی اللہ عنہ یا دوسرا شخص شهيد هوا :
فلم يوجد له ما يكفن فيه إلا بردة
”ایک چادر کے سوا اس کی کوئی ایسی چیز نہ مل سکی جس میں اسے کفن دیا جا سکے ۔“
[بخاري: 5045 ، كتاب المغازي: باب غزوه احد]
➋ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کے دن شہید کر دیے گئے :
ولم يترك إلا نمرة
”انہوں نے (ترکہ میں ) صرف ایک چادر چھوڑی۔“ جب ہم ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے قدم ظاہر ہو جاتے اور جب ان کے قدم ڈھانپتے تو ان کا سر ظاہر ہو جاتا بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کا سر ڈھانپنے اور قدموں پر کچھ اذخر (گھاس ) ڈال دینے کا حکم دیا۔
[بخارى: 1276 ، كتاب الجنائز: باب إذا لم يجد كفنا إلا ما يوارى رأسه أو قدميه ، مسلم: 940 ، أبو داود: 3155 ، ترمذي: 3943 ، نسائي: 38/4]
یہ حدیث اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ میت کے پورے جسم کو ڈھانپنا واجب نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے ساتھیوں سے کپڑا لے کر ان کے قدموں کو ڈھانپ دیتے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔
[نيل الأوطار: 401/2]
لٰہذا اگر کفن کم پڑ جائے تو سر کو ڈھانپ لیا جائے گا اور قدموں پر اذخر گھاس یا کوئی اور گھاس وغیرہ ڈال دی جائے گی ۔
[أحكام الجنائز للألباني: ص/78]
مذکورہ مسئلے کے لیے درج ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يجمع بين الرجلين من قتلي أحد فى ثوب واحد
نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے احد کے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں جمع کرتے تھے ۔“
[بخاري: 1343 – 1345 ، كتاب الجنائز: باب الصلاة على الشهيد ، أبو داود: 3138 ، ترمذي: 1036 ، ابن ماجة: 1515]