زندہ افراد پر مسلمان میت کو غسل دینا واجب ہے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق فرمایا جو حالت احرام میں سواری سے گر کر جاں بحق ہو گیا تھا:
اغسلوه بماء وسدر …..
”اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو….“
[بخارى: 1849 ، كتاب الحج: باب المحرم يموت بعرفة ، مسلم: 1206 ، أبو داود: 3238 ، ترمذي: 951 ، ابن ماجة: 3084 ، نسائي: 195/5]
➋ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے متعلق فرمایا:
إغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك
”اسے تین یا پانچ مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبه غسل دو ۔“
[بخارى: 1235 ، كتاب الجنائز: باب غسل الميت ووضوئه بالماء والسدر، مسلم: 939 ، أبو داود: 3142 ، ترمذي: 990 ، ابن ماجة: 1458 ، أحمد: 84/5 ، نسائي: 31/4]
(نوویؒ) میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے اور اس پر اجماع ہے۔
[المجموع: 112/5 ، شرح مسلم: 3/7]
(ابن حجرؒ) اس پر اعتراض کیا ہے کہ اجماع کا دعوی کیسے درست ہو سکتا ہے جبکہ مالکیہ اس کے مخالف ہیں۔
[فتح البارى: 125/2]
(قرطبیؒ) انہوں نے اس غسل کے مسنون ہونے کو ترجیح دی ہے۔
[المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم للحافظ أبى العباس أحمد بن عمر القرطبي: 592/2]
(ابن عربیؒ) مالکیہ وغیرہ کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ عمل قولا اور فعلا متواتر ہے۔
[كما فى فتح الباري: 162/2]
(جمہور) میت کو غسل دینا واجب ہے۔
[نيل الأوطار: 675/2]
(امیر صنعانیؒ ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
اغسلوه بماء و سلو ….
کہ یہ میت کو غسل دینے کے وجوب کی دلیل ہے۔
[سبل السلام: 728/2]
(ابن حزمؒ ) میت کو غسل دینا فرض ہے۔
[المحلى بالآثار: 333/3]
(صدیق حسن خانؒ) غسل میت کا وجوب متفق علیہ مسئلہ ہے۔
[الروضه الندية: 406/1]
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[أحكام الجنائز: ص/ 64]