سوال:
نومولود کے سر کے بال کب اتارنے چاہئیں؟ کیا یہ بال ناپاک ہوتے ہیں؟ اگر بچہ کمزور ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، تو کیا پھر بھی بال اتارنا ضروری ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
جب کوئی بچہ یا بچی پیدا ہو تو ساتویں دن چند اہم کام کیے جاتے ہیں، جن میں سے تین کام لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے مشترک ہیں:
◈ عقیقہ کرنا
◈ نام رکھنا
◈ حجامت (سر کے بال اتارنا) اور ان بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا
یہ تمام امور نبی کریم ﷺ کی اس حدیث سے ثابت ہیں:
”كل غلام مرتهن بعقيقته، تذبح عنه يوم سابعه، ويسمى فيه، ويحلق رأسه“.
[سنن الترمذي: 1522، وصححه الألباني في الإرواء: 4/385]
"ہر بچہ اپنے عقیقے کے بدلے گروی ہوتا ہے، جو ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے، اور اس کے سر کے بال اتارے جائیں۔”
چوتھا کام جو لڑکوں کے لیے مخصوص ہے، وہ ختنہ ہے۔ اگر بچے کی صحت ٹھیک ہو تو ساتویں دن ختنہ کرنا افضل ہے۔
کمزور بچے کے بال اتارنے میں تاخیر کا حکم:
اگر بچہ کمزور ہو اور اس کے بال فوراً نہ کاٹے جا سکیں تو بعد میں جب ممکن ہو، اس وقت بال کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
“فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ”
[التغابن: 16]
"پس جہاں تک تم سے ہو سکے، اللہ سے ڈرتے رہو اور (اس کے احکام) سنتے اور مانتے چلے جاؤ۔”
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا”
[البقرہ: 286]
"اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔”
کیا پیدائش کے بال ناپاک ہوتے ہیں؟
جہاں تک یہ سوال ہے کہ نومولود کے پیدائشی بال ناپاک ہوتے ہیں یا نہیں؟ تو ایسی کوئی بات شرعی طور پر ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بال ناپاک نہیں ہیں۔
واللہ اعلم