مدلس راوی کی عن والی روایت پر متقدمین اور ابن حجر کا موقف
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

ابن حجر رحمہ اللہ کا نظریہ

ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب
"تعریف أهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس”
میں مدلسین کو پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ ان کے اصول کے مطابق، پہلے دو طبقات کے مدلسین کی "عن” والی روایت قبول کی جاتی ہے، کیونکہ وہ یا تو بہت کم تدلیس کرتے ہیں یا صرف ثقہ راویوں سے تدلیس کرتے ہیں۔

 ائمہ حدیث کا نظریہ اور ابن حجر کا اختلاف

متقدمین محدثین کا سخت اصول

متقدمین محدثین، جیسے:

◄ امام بخاری
◄ امام مسلم
◄ امام شافعی
◄ امام احمد
◄ امام یحییٰ بن معین

کا اصول زیادہ سخت تھا۔ وہ کسی بھی مدلس راوی کی معنعن روایت کو تصریحِ سماع کے بغیر قبول نہیں کرتے تھے، چاہے وہ کم تدلیس کرتا ہو یا زیادہ۔

 امام بخاری رحمہ اللہ کا رد

امام بخاری مدلس راوی کی "عن” والی روایت کو قبول نہیں کرتے تھے جب تک سماع کی تصریح نہ ہو۔

مثال:
امام بخاری نے سفیان ثوری (جو دوسرے طبقے کے مدلسین میں شمار ہوتے ہیں) کی "عن” والی روایت کو بغیر تصریحِ سماع کے رد کر دیا۔

 امام مسلم رحمہ اللہ کا رد

امام مسلم فرماتے ہیں کہ جب تک مدلس راوی تصریحِ سماع نہ کرے، اس کی "عن” والی روایت حجت نہیں۔

انہوں نے اپنی "صحیح مسلم” میں مشہور مدلسین کی معنعن روایات نہیں لیں، جب تک کہ اتصال ثابت نہ ہو۔

 امام شافعی رحمہ اللہ کا سخت موقف

امام شافعی فرماتے ہیں:
لا نقبل رواية المدلس إلا إذا قال: حدثنا أو سمعت
(ہم مدلس کی روایت نہیں لیتے جب تک وہ "حدثنا” یا "سمعت” نہ کہے)۔

یہ اصول ابن حجر کے طبقات سے مختلف ہے، کیونکہ ابن حجر پہلے دو طبقات کی معنعن روایت کو قبول کرتے ہیں، جبکہ متقدمین اسے بھی رد کر دیتے ہیں۔

 امام یحییٰ بن معین اور امام احمد بن حنبل کا سخت رد

امام یحییٰ بن معین:
"مدلس کی معنعن روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وہ سماع کی تصریح نہ کرے۔”

امام احمد بن حنبل:
"بغیر تصریحِ سماع کے مدلس کی "عن” والی روایت ناقابلِ قبول ہے۔”

 امام شعبہ بن حجاج کا سخت ترین رد

امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ (جو "امیر المؤمنین فی الحدیث” کہلاتے ہیں) نے فرمایا:

التدليس أخو الكذب
(تدلیس جھوٹ کا بھائی ہے)۔

یعنی ان کے نزدیک مدلس کی "عن” والی روایت کو رد کرنا ضروری ہے۔

 خلاصہ: متقدمین اور ابن حجر کے موقف میں فرق

◈ متقدمین محدثین (بخاری، مسلم، شافعی، احمد، یحییٰ بن معین، ابن المدینی، دارقطنی وغیرہ) مدلس راوی کی "عن” والی روایت کو مطلقاً قبول نہیں کرتے جب تک تصریحِ سماع نہ ہو۔

◈ ابن حجر نے مدلسین کے طبقات بنائے اور پہلے دو طبقات کی "عن” والی روایت کو قابلِ قبول قرار دیا، مگر یہ متقدمین کے اصول کے خلاف ہے۔

◈ متقدمین کا سخت اصول زیادہ قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ حدیث میں احتیاط پر مبنی ہے اور تدلیس کے امکان کو مکمل طور پر ختم کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1