نماز کسوف کے بعد خطبے کی شرعی حیثیت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نماز کسوف کے بعد خطبے کی شرعی حیثیت

نماز کسوف کے بعد خطبہ بھی مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی صحیح روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فراغت کے بعد وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ :
إن الشمس والقمر آيتان من آيت الله
”بیشک شمس و قمر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ۔“
[بخاري: 1052 ، كتاب الجمعة: باب صلاة الكسوف جماعة ، مسلم: 907 ، موطا: 186/1 ، أبو داود: 1181]
امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ خطبة الإمام فى الكسوف ”دوران کسوف امام کا خطبہ ارشاد فرمانا (مسنون ہے )۔“ اور اس کے تحت نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
خطب النبى صلى الله عليه وسلم
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا۔“
[بخارى تعليقا: 1046]

نماز کسوف کے لیے آذان و اقامت کہنا

اس نماز کے لیے آذان و اقامت کہنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

کسوف و خسوف سے اللہ کے بندوں کو ڈرانا مقصود ہے

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولكن الله بخوف بهما عباده
”لیکن اللہ تعالیٰ ان دونوں (یعنی آفتاب و ماہتاب کے گہن ) کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں۔“
[بخارى: 1048 ، كتاب الكسوف: باب قول النبى: يخوف الله عباده بالكسوف]
ایک ضعیف روایت
جس روایت میں ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زلزلے کے موقع پر چار سجدوں اور چھ رکوعوں کے ساتھ نماز پڑھی اور فرمایا آیات الٰہی کی نماز اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔“ وہ ضعیف ہے۔
[بيهقى: 343/3 ، عبدالرزاق: 4932 ، التعليق على سبل السلام للشيخ صبحى حلاق: 263/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1