وضو کی خرابی سے امام کی غلطی کا حکم اور شرعی حیثیت

سوال

اگر نمازیوں میں سے کسی کا وضو درست نہ ہو اور امام نماز میں غلطی کر جائے تو اس کی کیا حیثیت ہے؟ کیا اس بارے میں کوئی صحیح یا ضعیف روایت یا اثر موجود ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ اگر نمازی وضو درست نہ کرے تو اس کا اثر امام کی قراءت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی درج ذیل حدیث اس مسئلے کی وضاحت کرتی ہے:

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی

“نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے نماز فجر پڑھائی، اس میں آپ نے سورۃ الروم کی تلاوت فرمائی، تو آپ کو تلاوت میں شبہ ہو گیا۔ جب نماز مکمل کر لی تو فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور وضو صحیح طریقے سے نہیں کرتے؟ یہی لوگ ہمیں قراءت میں شک میں ڈال دیتے ہیں۔”
📖 (سنن النسائي: 948)

حدیث سے اخذ کردہ نکات

وضو کی درستگی ضروری ہے:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو اور طہارت میں کوتاہی نماز میں خلل ڈال سکتی ہے۔

امام پر اثر:
اگر مقتدی وضو میں کوتاہی کرتے ہیں تو اس کا اثر امام کی نماز پر بھی پڑ سکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے فرمان سے معلوم ہوتا ہے۔

اہتمامِ طہارت:
نبی کریم ﷺ نے وضو اور طہارت کی درستگی پر زور دیا تاکہ نماز میں خشوع و خضوع برقرار رہے۔

نتیجہ

اگر نمازی وضو میں کوتاہی کرتے ہیں تو اس سے امام پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ سنن نسائی میں موجود ہے، اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ طہارت میں کمی امام کی قراءت پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اس لیے ہر نمازی کو چاہیے کہ وضو اور طہارت کا خاص خیال رکھے تاکہ نماز کی درستگی اور خشوع میں خلل نہ آئے۔

خلاصہ

✿ وضو اور طہارت کی کمی امام کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے، اس لیے تمام نمازیوں پر لازم ہے کہ وہ وضو اور طہارت کو مکمل اہتمام سے ادا کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1