سوال
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ جہراً پڑھنا ثابت ہے، لیکن اس کے ادعیہ اور درود شریف جہراً ثابت نہیں ہیں۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
نماز جنازہ کے بارے میں افضل اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے سری (آہستہ آواز میں) پڑھا جائے، جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت سے ثابت ہے:
نماز جنازہ سری پڑھنے کا ثبوت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"سنت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں اور آخری تکبیر کے بعد سلام پھیرا جائے۔”
(سنن النسائي: 1991)
تعلیم کی غرض سے جہری قراءت کا جواز
اگر لوگوں کو سکھانے کے مقصد سے نماز جنازہ جہراً پڑھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا عمل
حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں:
"ہم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ بلند آواز سے پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔”
(صحیح البخاری: 1335)
ایک اور روایت میں حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف بیان کرتے ہیں:
"میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا، انہوں نے سورہ فاتحہ اور ایک اور سورت بلند آواز میں پڑھیں، یہاں تک کہ ہمیں سنائی دیں۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت اور حق ہے۔”
(سنن النسائي: 1989)
اسی طرح ایک اور روایت میں ذکر ہے:
"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی تو انہوں نے سورہ فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔”
(سنن الترمذي: 1027)
نتیجہ
◄ نماز جنازہ کو سری پڑھنا افضل ہے جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے۔
◄ تعلیم و تلقین کی غرض سے جہراً پڑھنے کی اجازت ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔
◄ جہری قراءت کے بارے میں صحابہ کرام کا عمل موجود ہے، تاہم عمومی طور پر جنازہ نماز سری ہی ادا کی جاتی ہے۔
خلاصہ
✿ تعلیم کے لیے سورہ فاتحہ کو جہراً پڑھنا جائز ہے، لیکن عمومی طور پر نماز جنازہ کو سری پڑھنا افضل اور بہتر طریقہ ہے۔