ناموس رسالت ﷺ اور مغربی سازشوں کا تاریخی پس منظر

ناموسِ رسالت ﷺ کا معاملہ

ناموسِ رسالت ﷺ کا معاملہ محض کسی ایک شخصیت کے دفاع کا نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل نظریے، عقیدے اور پوری امتِ مسلمہ کے وجود کا مسئلہ ہے۔ بعض مواقع پر یہ معاملہ اسلام کے بنیادی ترین عقیدے، یعنی توحید سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی ذات اور دین کی سچائی

اسلامی تعلیمات ہم تک نبی کریم ﷺ کے ذریعے پہنچیں۔ اگر آپﷺ کی ذات کو ہی مشکوک بنا دیا جائے، تو پورا دینی ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ کفار ہمیشہ اس حقیقت کو سمجھتے رہے ہیں، اسی لیے انہوں نے نبی کریم ﷺ کے نظریات کے بجائے آپﷺ کی ذات پر حملے کیے۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے اعلانِ نبوت سے پہلے آپﷺ کے کردار کی سچائی کو عرب معاشرے میں تسلیم کروایا۔ اہلِ عرب نے آپﷺ کو "صادق” اور "امین” مانا۔ جب دعوتِ اسلام پیش کی گئی، تو کفار نے نظریاتی بحث کے بجائے آپﷺ کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔

◄ کبھی آپﷺ کو کاہن، شاعر یا مجنون قرار دیا گیا۔
◄ کبھی آپﷺ کو بغاوت پر اُکسانے والا یا بادشاہت کا خواہش مند کہا گیا۔
◄ مدینہ ہجرت کے بعد آپﷺ کے اہلِ خانہ پر الزامات لگائے گئے اور صداقت و امانت پر شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
◄ ادب و شاعری کے ذریعے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی۔
◄ یہود و نصاریٰ نے مختلف الزامات عائد کیے، جیسے تعددِ ازواج، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، اور مدینہ سے یہودی قبائل کی بے دخلی۔

استشراقی فکر اور مغرب کی سازشیں

بعد ازاں، مستشرقین نے نبی کریم ﷺ کی ذات پر اعتراضات کی نئی لہر شروع کی۔ کبھی یہ الزامات چرچ کے زیرِ اثر لگائے گئے اور کبھی یہودی مفکرین نے انہیں فروغ دیا۔ آج مغربی دنیا انہی پرانے اعتراضات کو نئی شکل میں دہرا رہی ہے۔

Dante Alighieri نے Divine Comedy میں نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی۔
Charlie Hebdo جیسے مغربی ذرائع "آزادیٔ اظہار” کی آڑ میں گستاخانہ مہم چلا رہے ہیں۔

ہمارے اندرونی شکست خوردہ طبقے کی سوچ

مغرب کی اسلام دشمن پالیسیوں سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ خود ہمارے اندر سے کچھ لوگ مغرب کے اعتراضات کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ استعمار کے زیرِ اثر ایسے طبقات پیدا ہوئے جو یہ کہنے لگے کہ:

◄ ہم نے مذہب کا مقدمہ صحیح طریقے سے نہیں پہنچایا۔
◄ ہمارے دلائل کمزور ہیں، جدید دور میں یہ کارگر نہیں۔
◄ علمی میدان میں ہم اتنے پسماندہ ہیں کہ مغرب ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔
◄ قدیم دلائل غیر متعلق ہو چکے ہیں۔

یہ نظریہ دو مختلف مکاتبِ فکر میں تقسیم ہوتا ہے:

➊ پہلا مکتبِ فکر یہ کہتا ہے کہ مذہب کو اتنا بدل دیا جائے کہ وہ مغرب کے لیے قابلِ قبول ہو جائے۔ اس سوچ کے حاملین میں سر سید احمد خان، ڈاکٹر فضل الرحمٰن، وحید الدین خان اور جاوید احمد غامدی جیسے افراد شامل ہیں۔
➋ دوسرا مکتبِ فکر یہ مانتا ہے کہ مذہب کے دلائل کو فقہی و کلامی روایت سے نکال کر جدید فلسفے، منطق اور سائنس کی زبان میں پیش کیا جائے۔

عیسائیت کی مثال اور حقیقت

یہ سوچ کہ مذہب کو جدید تقاضوں کے مطابق بدلا جا سکتا ہے، پہلے بھی آزمایا جا چکا ہے۔ مغربی مسیحیت نے اپنی مذہبی تعلیمات میں بے شمار تبدیلیاں کیں، مگر اس کے باوجود وہ مغرب کی گستاخیوں سے خود کو نہیں بچا سکی۔

بائبل میں ہم جنس پرستی کو سختی سے منع کیا گیا تھا:

"You shall not lie with a male as with a woman; it is an abomination.” (Leviticus 18:22)
"If a man lies with a male as with a woman, both of them have committed an abomination; they shall surely be put to death; their blood is upon them.” (Leviticus 20:13)

لیکن آج کے پوپ نے ہم جنس پرستی کے تعلقات کو جائز قرار دے دیا:

"Pope Francis has said that he thinks same-sex couples should be allowed to have ‘civil unions’.”

اس کے باوجود، مغرب نے چرچ کی عزت نہیں کی، بلکہ وہی رویہ اپنایا جو وہ دیگر مذاہب کے ساتھ رکھتا ہے۔

نتیجہ: مغرب کو مذہب سے دشمنی ہے، نبی کریم ﷺ سے نہیں

مغرب کی مخالفت کسی ایک مذہب سے نہیں، بلکہ ہر مذہب سے ہے۔ وہ صرف نبی کریم ﷺ کی گستاخی نہیں کرتے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں بھی بے شمار گستاخیاں کر چکے ہیں۔

جو لوگ اسلام کو "جدید” بنانے کی بات کرتے ہیں، وہ یا تو حقیقت سے لاعلم ہیں یا خود کو اور امتِ مسلمہ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ مغربی اعتراضات کا حل اسلامی تعلیمات میں تحریف نہیں، بلکہ مضبوط عقیدے اور دلیل کے ساتھ ان کا جواب دینا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1