حجاب پر پابندی اور لبرل ازم کے اصولوں کا تضاد

کلاس میں نیوکلاسیکل اکنامکس اور لبرل ازم

کلاس میں نیوکلاسیکل اکنامکس کے ایک اہم پہلو پر بات ہوئی، جو لبرل ازم سے جڑا ہوا ہے۔ یہ صرف معیشت تک محدود نہیں بلکہ سماجی، سیاسی اور قانونی امور میں بھی نظر آتا ہے۔ جدید دور میں یہ "ہیومن رائٹس” کے نام سے جانا جاتا ہے اور پالیسی سازی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔

حجاب پر پابندی اور لبرل ازم

حجاب پر پابندی ایک ایسا موضوع ہے جس پر لبرل ازم اور اسلام، دونوں کے حوالے سے بحث کی جاتی ہے، مگر اکثر دلیل سازی میں خلط مبحث پیدا ہو جاتا ہے۔ لبرل اصولوں کو اسلامی اصول سمجھ کر گفتگو کی جاتی ہے اور اگر کوئی بات لبرل ازم کی رو سے درست ثابت ہو جائے تو اسے اسلامی حکم بھی مان لیا جاتا ہے، حالانکہ یہ دونوں الگ بنیادوں پر کھڑے ہیں۔

طلباء کے سوالات اور ان کے جوابات

بحث کے دوران طلباء نے چند عام سوالات اٹھائے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

لباس ذاتی معاملہ ہے

◄ اگر لباس واقعی مکمل طور پر ذاتی مسئلہ ہوتا تو مختلف معاشروں میں اس پر کوئی قانونی یا سماجی قدغن نہ ہوتی۔

اچھی طرح لباس پہننے والی خواتین بھی ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں

◄ کسی برے عمل کے وجود سے کسی ضابطے کی افادیت ختم نہیں ہو جاتی۔

جب قرآن کہتا ہے کہ دین میں جبر نہیں، تو لباس پر پابندی کیسے؟

◄ دین میں جبر نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی بھی دینی حکم کی سماجی سطح پر کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔

میں کیسا لباس پہنتا/پہنتی ہوں، اس کا جواب خدا کو دینا ہے، دوسروں کو نہیں

◄ فرد کے بہت سے اعمال کا اثر صرف اس پر نہیں بلکہ پورے سماج پر ہوتا ہے، اس لیے مکمل انفرادی آزادی ممکن نہیں۔

لبرل ازم کو کیوں نہ اپنایا جائے، جبکہ ہر کوئی اپنے عقیدے پر قائم رہ سکتا ہے؟

◄ اسلام اور لبرل ازم الگ الگ اصول رکھتے ہیں، ایک کو بنیاد بنا کر دوسرے کے احکام طے نہیں کیے جا سکتے۔

شریعت کیا ہے؟ اس میں تو اختلاف پایا جاتا ہے، تو کسی کی تشریح کو کیسے تسلیم کیا جائے؟

◄ ہر حکم میں اختلاف نہیں ہوتا، اور جہاں ہوتا ہے، وہاں بھی اصولی رہنمائی موجود ہے۔ اگر ہر اختلاف کی بنیاد پر کسی چیز کو مشکوک بنا دیا جائے تو کسی بھی ضابطے پر عمل ممکن نہیں رہے گا۔

لبرل ازم اور ریاست کی مداخلت

بات حجاب پر پابندی سے آگے بڑھ کر یورپ اور امریکہ میں مختلف معاملات میں ریاستی مداخلت کی مثالوں تک جا پہنچی۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد شہریوں کی پرائیویسی پر کئی قدغنیں لگائی گئیں، جیسے کہ ٹیلی فون ریکارڈنگ اور لائبریری سے لی گئی کتابوں کی نگرانی۔ اس پر بھی سوال اٹھا کہ کیا یہ لبرل ازم کے خلاف نہیں؟

اگر لبرل ازم کی کوئی متعین کتاب (جیسے اسلام میں قرآن و سنت) نہیں ہے، تو پھر یہ کیسے معلوم ہوگا کہ حقیقی لبرل ازم کیا ہے؟ کیا ریاست فیصلہ کرے گی، یا کوئی فرد؟ جب اسلام کی بات آتی ہے تو "اختلاف” کو جواز بنا کر اصول رد کر دیے جاتے ہیں، مگر لبرل ازم میں یہی اعتراض نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

لباس اور ریاستی مداخلت

لبرل ازم میں ریاست کو فرد کے اعمال میں مداخلت کا حق دو بنیادی اصولوں پر حاصل ہوتا ہے:

Externality (بیرونی اثرات)

◄ اگر کسی فرد کے عمل سے دوسروں پر مثبت یا منفی اثر پڑے تو ریاست مداخلت کر سکتی ہے۔
مثال: عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی۔

Internality (ذاتی نقصان سے بچاؤ)

◄ اگر کوئی فرد اپنے مفاد کو سمجھنے میں غلطی کرے تو ریاست اسے روک سکتی ہے۔
مثال: سیٹ بیلٹ یا ہیلمٹ پہننے کی قانونی شرط۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا لباس بھی ان اصولوں میں آتا ہے؟ اگر کوئی خاتون "انجانے میں” ایسی شناخت اپنا رہی ہو جو کسی خاص نظریے کی علامت سمجھی جاتی ہو، تو کیا ریاست اسے روکنے کا حق رکھتی ہے؟ اگر نہیں، تو لبرل اصولوں کی وہ کون سی بنیاد ہے جو اس کی ممانعت کرتی ہے؟

نتیجہ

یہ کہنا کہ "حجاب پر پابندی لبرل اصولوں کے خلاف ہے” ایک عامیانہ بیان ہے۔ لبرل ازم میں اتنی لچک ہے کہ اس کے اصولوں کی بنیاد پر ہی اس پابندی کو درست ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض افراد لبرل ازم کو اس کے ماہرین سے بھی زیادہ مستحکم نظریہ سمجھتے ہیں، حالانکہ اس میں اختلافات کی بہت بڑی گنجائش موجود ہے۔

لہٰذا، سوال یہ نہیں کہ حجاب پر پابندی لگانا یا نہ لگانا لبرل ازم کے مطابق ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ "حقیقی لبرل ازم” کیا ہے اور اس کا تعین کون کرے گا؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1