قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا آخری اور محفوظ کلام ہے جس کی صحیح تفہیم ہر مسلمان پر لازم ہے۔ مگر قیامت کی نشانیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ حقیقی علم اٹھا لیا جائے گا اور لوگ جاہلوں کو رہنما بنالیں گے، جو بے علم فتوے دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
➊ ’’قیامت کے قریب علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی۔‘‘
(*صحیح بخاری، کتاب العلم؛ صحیح مسلم، کتاب العلم*)
انہی پیش گوئیوں کی مثال ہم احمد رضا خان بریلوی (المعروف ’’اعلیٰ حضرت‘‘) کے ترجمۂ قرآن ’’کنز الایمان‘‘ میں دیکھتے ہیں؛ جہاں محض ذاتی عقائد کے تحفظ کی خاطر آیاتِ قرآنی کے اصل معانی میں لفظی تحریف اور بے جا اضافے کیے گئے۔ خود بریلوی کتب میں لکھا ہے کہ احمد رضا خان صاحب یہ ترجمہ قیلولہ کے وقت، سابقہ تفاسیر سے استفادے کے بغیر لکھواتے جاتے تھے
(*انوارِ رضا، انوارِ کنز الایمان، براہینِ صادق*).
ذیل میں چند نمایاں مثالیں ملاحظہ ہوں:
1) علمِ غیب کی نسبت
آیت:
قُلْ لَآاَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبِ
(الانعام: 50)
ترجمہ کنز الایمان:
’’تم فرماؤ، میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں۔‘‘
یہاں عربی متن میں “لا اَعلَمُ الغیب” کا سیدھا مفہوم ’’میں غیب نہیں جانتا‘‘ ہے، مگر احمد رضا خان صاحب نے ’’آپ غیب جان لیتا ہوں‘‘ کا فقرہ داخل کرکے مفہوم بدل دیا۔
2) بشریتِ انبیاء علیہم السلام
آیت:
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ
(الکہف: 110)
ترجمہ کنز الایمان:
’’تم فرماؤ، ظاہرِ صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں…‘‘
عربی آیت میں ’’ظاہری صورت‘‘ کا کوئی لفظ نہیں۔ یہ محض خان صاحب کا ذاتی اضافہ ہے، تاکہ یہ عقیدہ پیش کیا جاسکے کہ نبیؐ حقیقتاً نور ہیں اور بشر صرف ظاہر میں ہیں۔
3) اختیارِ کل کا عقیدہ
آیت:
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ
(یونس: 49)
ترجمہ کنز الایمان:
’’تم فرماؤ، میں اپنی جان کے برے بھلے کا (ذاتی) اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے۔‘‘
یہاں بھی ’’ذاتی‘‘ کا لفظ قرآن میں نہیں۔ اس اضافے سے مطلب یہ نکالا گیا کہ اگرچہ اپنی ذات سے کچھ نہیں کرسکتا، لیکن ’’عطائی‘‘ طور پر ہر کام کرسکتا ہوں۔
4) حاضر و ناظر کی تحریف
آیت:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا
(الاحزاب: 45)
ترجمہ کنز الایمان:
’’اے نبی! بے شک ہم نے تم کو بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔‘‘
لفظ ’’شاھدٌ‘‘ کا معنی ’’گواہ‘‘ ہے۔ کسی قدیم یا معتبر تفسیر میں اسے ’’حاضر و ناظر‘‘ نہیں کہا گیا۔ یہ صریح تحریف شمار ہوتی ہے۔
خلاصۂ کلام
اس قسم کے متعدد مقامات پر احمد رضا خان نے اپنے عقائد کے تحفظ کے لیے آیاتِ قرآن کا ترجمہ بدل دیا، جو نہ صرف تمام قدیم تراجم اور تفاسیر کے خلاف ہے بلکہ اصولِ تفسیر اور عربی قواعد سے بھی متصادم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ کریم کی اصل مراد سمجھنے اور اس کی عظمت کو برقرار رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین۔
مراجع و مصادر (مثالاً):
- صحیح بخاری، کتاب العلم، حدیث:178؛ کتاب الفتن، حدیث:13
- صحیح مسلم، کتاب العلم، حدیث:16
- انوار رضا، انوار کنزالایمان، براہینِ صادق