عورتوں کے حقوق اور ہمارے معاشرے کی خود احتسابی

عورت مارچ: حقیقت یا پروپیگنڈہ؟

عورت مارچ کی مخالفت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کا اصل مقصد مسلمان خواتین کو اسلام سے دور کرنا تھا، نہ کہ ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا۔ اگرچہ اس مارچ کے حامی مختلف تاویلیں پیش کرتے رہے، لیکن اس میں شریک افراد—جن میں مردوں کی تعداد زیادہ تھی—نے اپنے نعروں اور بیانات سے واضح کر دیا کہ ان کے حقیقی عزائم کیا تھے۔ بیشتر افراد کنفیوزڈ نظر آئے، اور کنفیوژن ہی درحقیقت مابعد جدیدیت کا اہم ہتھیار ہے۔

جدید جاہلیت کی طرف دعوت

یہ لوگ ان خواتین کو، جو قدیم جاہلی اور فرسودہ روایات کا شکار ہیں، جدید جاہلیت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید جاہلیت، قدیم جاہلیت کے مقابلے میں خواتین کے معاملے میں زیادہ ظالمانہ ہے۔ اب جبکہ وقت گزر چکا ہے اور ان مارچوں کے منتظمین عوام کی عدم دلچسپی یا مخالفت کے باوجود نئے سماجی منصوبے بنا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس تحریک کا حصہ بنایا جا سکے، ہمیں بھی اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا ہوگا۔

ہمارا احتساب: کیا ہم نے خواتین کو ان کے حقوق دیے؟

یہ وقت ہے کہ ہم اپنا اور اپنے خاندان کا احتساب کریں کہ آیا خواتین کو وہ تمام حقوق مل رہے ہیں جو اسلام نے انہیں دیے ہیں۔ چند اہم سوالات پر غور کریں:
◄ کیا ہمارے معاشرے میں خواتین پر جاہلی روایات کی وجہ سے ظلم نہیں ہوتا؟
◄ کیا انہیں جائیداد سے محروم نہیں رکھا جاتا؟
◄ کیا ان کی مرضی کے بغیر انجان افراد سے ان کا نکاح نہیں کر دیا جاتا؟
◄ کیا انہیں دین اور دنیا کی تعلیم میں مردوں کے مقابلے میں کم اہمیت نہیں دی جاتی؟
◄ کیا بہو بن کر انہیں روز طعنے نہیں سننے پڑتے؟
◄ کیا شوہر کے گھر میں ان کے خاندان کی بے جا تنقید نہیں کی جاتی؟
◄ کیا مردوں کے جھگڑوں کا خمیازہ کسی معصوم بچی کو ونی یا سوارہ کی صورت میں نہیں بھگتنا پڑتا؟
◄ کیا ناموس اور عزت کے نام پر خواتین کو قربان نہیں کر دیا جاتا؟
یہ چند مثالیں ہیں، جبکہ خواتین پر ہونے والے مظالم کی فہرست کہیں زیادہ طویل ہے۔ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم نے کبھی ان مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی؟

حقوق کی پامالی: خاموشی کب تک؟

◄ ہم کب تک یہ کہتے رہیں گے کہ اسلام نے عورت کو حقوق دیے، جبکہ عملی طور پر ہم نے وہ حقوق ان تک نہیں پہنچائے؟
◄ کب تک ہم اپنی جاہلیت کو اسلام کے پردے میں چھپاتے رہیں گے؟
◄ اگر ہم خاموش رہے تو یہی فیمنسٹ تحریکیں ان مظلوم خواتین کو اپنے ساتھ ملا لیں گی۔

❀ اگر ہم پردے کے نام پر خواتین کو تعلیم سے محروم رکھیں گے، تو یہ لوگ انہیں برہنہ کر کے گھروں سے باہر نکالیں گے۔
❀ اگر ہم خواتین کو اپنی پسند کی شادی سے روکیں گے، تو یہ لوگ انہیں بوائے فرینڈ مہیا کریں گے۔
❀ اگر ہم عزت اور روایات کے نام پر عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کریں گے، تو یہ لوگ انہیں اسلام سے بیزار کر دیں گے۔
❀ اگر ہم کسی عورت پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، تو یہی لوگ اس مظلوم عورت کی داستان کو اپنی فلموں اور ڈاکیومینٹریز میں پیش کریں گے۔

ظلم کا ردعمل: دگنا نقصان

ہر ظلم اور محرومی کا بدلہ ہمیں کئی گنا بڑھ کر ملے گا، اور جب یہ بدلہ قانون کی شکل میں آئے گا تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ ہم عزم کریں کہ خواتین کو ان کے شرعی حقوق دیں اور ان فرسودہ روایات کو ختم کریں جو کفر سے توبہ کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں باقی ہیں۔

اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔(القرآن)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1