خواتین کی جنسی ہراسانی اور جدید و مذہبی نقطہ نظر
تحریر: عمار خان ناصر

معاشرتی زندگی میں خواتین کو جنسی ہراسانی کا سامنا

معاشرتی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کو مردوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جانا ایک اہم سماجی مسئلہ ہے، جو وقتاً فوقتاً زیر بحث آتا رہتا ہے۔ اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں، جن میں انسانی فطرت، اخلاقیات، سماجی روایات، جدید معاشی نظام، اور قانون و ریاست کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔

جنسی ہراسانی کی حیاتیاتی اور سماجی وجوہات

◄ مرد و عورت کے درمیان جنسی کشش فطری ہے، لیکن یہ ہمیشہ دو طرفہ نہیں ہوتی۔
◄ عورت فطری طور پر کم جارح مزاج ہوتی ہے اور سماجی تربیت بھی اسے اپنی رغبت کے اظہار سے روکتی ہے، جبکہ مرد عمومی طور پر حاوی اور پیش قدمی کرنے والا ہوتا ہے۔
◄ جب مرد کو عورت پر کسی بھی طرح کا اختیار حاصل ہو اور وہ اس کی مجبوری یا کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر اپنی خواہش مسلط کرے، تو جنسی ہراسانی جنم لیتی ہے۔

جنسی ہراسانی کی تعریف

◄ جنسی ہراسانی وہ عمل ہے جس میں مرد، عورت کی کمزور پوزیشن یا کسی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس کی مرضی کے بغیر اس سے جنسی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
◄ دنیا کے تمام معاشروں میں یہ غیر اخلاقی اور جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کے سدباب کے لیے قوانین موجود ہیں۔

مذہب کا نقطہ نظر

مذہب جنسی ہراسانی کے مسئلے کو تین بنیادی اصولوں پر پرکھتا ہے:

صنفی تعلق کی اخلاقی حدود

◄ صرف باہمی رضامندی صنفی تعلق کے جواز کے لیے کافی نہیں، بلکہ کچھ اخلاقی اصول بھی ضروری ہیں۔

مرد و زن کے میل جول کے آداب

◄ غیر ضروری اختلاط کو محدود کرنے اور دونوں صنفوں کو کچھ حدود و قیود کا پابند بنانے پر زور دیا گیا ہے۔

زبردستی اور استحصال کی مذمت

◄ جبر، زبردستی، یا عورت کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ایک بڑا گناہ اور ناقابل قبول عمل ہے۔
◄ مذہب صرف جنسی ہراسانی کو نہیں، بلکہ فحاشی اور فلرٹیشن کو بھی غلط سمجھتا ہے، چاہے وہ باہمی رضامندی سے ہو۔

لبرل فلسفہ اور جدید معاشرتی رویہ

◄ جدید انسانی حقوق کا فلسفہ جنسی ہراسانی کو صرف عورت کی انفرادی آزادی اور تحفظ کے تناظر میں دیکھتا ہے۔
◄ اس نقطہ نظر میں عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے پہنے اور صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنے کے جو طریقے چاہے، اپنائے۔
◄ اخلاقی یا سماجی سطح پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جا سکتی، جب تک کہ ہراسانی کی حد پار نہ ہو۔
◄ جنسی جذبات کو ابھارنے اور عورت کے حسن کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔
◄ اس سوچ میں تضاد یہ ہے کہ ایک طرف عورت کے نسوانی حسن کو نمایاں کرنے کے تمام مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل صرف قانونی اقدامات میں تلاش کیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جنسی ہراسانی کا پس منظر

◄ ہمارا معاشرہ روایتی اور جدید اقدار کے درمیان الجھا ہوا ہے۔
◄ جدید نظریات کی وجہ سے فرد کی آزادی کو سب سے بڑی قدر مانا جانے لگا ہے، جس کے باعث اعلیٰ اخلاقی اصول پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
◄ خواتین کی معاشی خود مختاری نے انہیں معاشرتی میدان میں سرگرم کر دیا ہے، لیکن ان کے تحفظ کے لیے ضروری تدابیر کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

جنسی ہراسانی کے سدباب کے لیے ضروری اقدامات

معاشرتی رویے کی اصلاح

◄ خواتین کے احترام، ہمدردی اور تحفظ کا عمومی ماحول پیدا کیا جائے۔
◄ مردوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ وہ خواتین کو صنف مخالف کے بجائے ایک ذمہ دار فرد کے طور پر دیکھیں۔

اخلاقی تربیت

◄ خواتین کو بھی زیب و زینت کے حوالے سے اخلاقی حدود کی پاسداری کرنی چاہیے۔
◄ مخلوط ماحول میں خواتین کے بناؤ سنگھار کا مقصد عمومی طور پر دوسری خواتین کے درمیان نمایاں نظر آنا ہوتا ہے، لیکن اسے غلط معنی پہنائے جاتے ہیں۔

قانونی اقدامات

◄ قانون کو صرف آخری حد کے طور پر استعمال کیا جائے، جبکہ روزمرہ کے اخلاقی اصول اور معاشرتی آداب کو مضبوط کیا جائے۔

نتیجہ

جنسی ہراسانی کا تعلق صرف مرد کی جارحیت سے نہیں، بلکہ مجموعی معاشرتی ماحول سے بھی ہے۔ اگر مرد و عورت کے میل جول میں اخلاقی حدود کا خیال رکھا جائے اور خواتین کے احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے، تو اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جدید معاشرتی نظریہ اس پہلو کو نظر انداز کرتا ہے، جس کے باعث یہ مسئلہ ہمیشہ حل طلب رہے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1