ہم جنس پرستی سائنسی تحقیق اور حقیقت کا انکشاف

قوس قزح پروفائل پکچر اور مغربی نظریات

چند سال قبل فیس بک پر اپنی پروفائل تصویر کو قوس قزح کے رنگوں میں تبدیل کرنا ایک رجحان بن گیا، جس کا مقصد ہم جنس پرستی کی حمایت اور اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تھا۔ بہت سے لوگوں نے ناسمجھی میں اس مہم کا حصہ بننا پسند کیا، جبکہ کچھ افراد نے شعوری طور پر اس کی حمایت کی۔ میری فہرست میں شامل دو افراد—ایک میرے سابق طالب علم اور دوسری ایک NGO سے وابستہ خاتون—نے اس کی مکمل تائید کی اور سائنسی دلائل کے ساتھ اپنے مؤقف کی وضاحت بھی کی۔

سائنسی دلیل: جینیاتی یا نظریاتی؟

ہم جنس پرستی کے حامیوں کا سب سے مضبوط مؤقف یہ رہا کہ یہ جینیاتی ہے اور سائنسی تحقیق نے اسے "نارمل” قرار دے دیا ہے۔ تاہم، میں نے ان افراد کو یہ وضاحت دی کہ درحقیقت یہ تسلیم شدہ سائنسی حقیقت نہیں بلکہ معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نظریہ ہے۔

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہم جنس پرستی کو ذہنی امراض کے زمرے سے نکالنے کا فیصلہ سائنسی بنیادوں پر نہیں بلکہ ہم جنس پرست گروہوں کے مسلسل احتجاج اور دباؤ کی بنا پر کیا گیا۔ 1990 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
(WHO)
نے اسے ذہنی بیماریوں کی فہرست سے نکال دیا، جس کے بعد مغربی ممالک نے یکے بعد دیگرے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دینا شروع کر دی۔

2019 کی سائنسی تحقیق اور حقیقت

اگست 2019 میں
Science
جریدے میں ایک بڑی تحقیق شائع ہوئی جس میں 5 لاکھ افراد کے جینیاتی ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ عام طور پر، اتنے بڑے پیمانے پر تحقیق کم ہی کی جاتی ہے، لیکن مغرب میں سائنسی تحقیق پر وسائل خرچ کرنے کی روایت مضبوط ہے۔

اس تحقیق کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ آیا ہم جنس پرستی واقعی جینیاتی بنیاد رکھتی ہے؟ تحقیق کے نتائج حیران کن تھے:

"It is not possible to predict your sexual behavior from your DNA alone.”

(ترجمہ: صرف ڈی این اے کی بنیاد پر آپ کے جنسی رجحان کی پیش گوئی ممکن نہیں۔)

اسی تحقیق کے ایک محقق
Robbee Wedow
نے 31 اگست 2019 کو نیویارک ٹائمز میں لکھا:

"It is important not to overstate the role of genes.”

(ترجمہ: جینز کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا درست نہیں۔)

ہم جنس پرستی اور دیگر ذہنی امراض کا تعلق

مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہم جنس پرستی کا تعلق کچھ نفسیاتی مسائل جیسے مایوسی
(Depression)
اور شیزوفرینیا
(Schizophrenia)
سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ نیویارک ٹائمز میں شائع مضمون کے مطابق:

"The researchers found that whether someone ever engaged in same-sex sexual behavior showed genetic correlations with mutual health issues, like major depressive disorder or schizophrenia, and with traits like experience and loneliness.”

(ترجمہ: محققین نے پایا کہ وہ افراد جو ہم جنس پرستی میں ملوث تھے، ان میں مایوسی، شیزوفرینیا اور تنہائی جیسے مسائل زیادہ پائے گئے۔)

یہ نتائج اس مؤقف کی مکمل نفی کرتے ہیں کہ ہم جنس پرستی مکمل طور پر "فطری” ہے اور اس میں کوئی نفسیاتی پہلو شامل نہیں۔

سائنسی نظریات اور دو انتہائیں

یہ تحقیق ہمیں دو بڑی انتہاؤں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے:

سائنس کو حتمی سچائی ماننا:

◄ جدید دور میں کچھ لوگ سائنس کو وحی کے برابر سمجھتے ہیں اور اسی کی روشنی میں ہر چیز کا جواز تلاش کرتے ہیں۔
◄ لیکن سائنسی تحقیقات ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی نظریہ ہمیشہ کے لیے "حتمی سچ” نہیں ہوتا۔

سائنس کو مکمل فتنہ سمجھنا:

◄ دوسری انتہا وہ لوگ ہیں جو سائنس کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور اسے ایک فتنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
◄ اس رویے کے نتیجے میں مذہبی طبقہ سائنسی ترقی سے کٹ جاتا ہے اور علمی میدان میں پیچھے رہ جاتا ہے۔

نتیجہ: سائنس اور مذہب کی حقیقت

سائنس ایک مشاہداتی علم ہے جو تجربے اور تحقیق کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ یہ نہ کسی مذہب کے حق میں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے خلاف۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سائنسی تحقیقات بدلتی رہتی ہیں، اور ان کی بنیاد پر مذہبی تعلیمات کو چیلنج کرنا دانشمندی نہیں۔ جو لوگ سائنس کی بنیاد پر ہم جنس پرستی کے جواز پیش کر رہے تھے، آج وہی سائنس ان کے دعووں کی تردید کر رہی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1