دوران خطبہ سلام کا جواب اور دیگر اذکار کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

دوران خطبہ سلام کا جواب اور دیگر اذکار

(ابو یوسفؒ ، احمدؒ ، اسحاقؒ) جس شخص کو چھینک آئے اس کا جواب دینا اور سلام کا جواب دینا دوران خطبہ درست ہے۔
(شافعیؒ) یہ دونوں کام درست نہیں۔ [تحفة الأحوذى: 58/3 ، عمدة القاري: 321/5]
(البانیؒ) زیادہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ دوران خطبہ سلام کا جواب دینا اور جسے چھینک آئے اس کے لیے يرحمك الله کہنا ناجائز و ممنوع ہے ۔ [تمام المنة: ص/ 339]
(نوویؒ) یہی بات شافعیہ کے نزدیک صحیح منصوص ہے ۔
[المجموع: 524/4]
(ابن حزمؒ ) دوران خطبہ خاموشی فرض ہے لیکن (صرف) سلام کہنا ، سلام کا جواب دینا ، اگر چھینک آئے تو الحمد لله کہنا اگر کوئی الحمد لله کہے تو (اس کے جواب میں ) يرحمك الله کہنا ، پھر اس کے جواب میں يهديكم الله ويصلح بالكم کہنا ، اگر امام درود کا کہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا ، اس کی دعا پر آمین کہنا ، بوقت ضرورت امام سے مخاطب ہونا اور کسی بھی کام میں اگر امام کسی سے کلام شروع کرے تو اسے جواب دینا (درست ) ہے۔
[المحلى بالآثار: 268/3]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) میرے نزدیک زیادہ مناسب یہ ہے کہ دوران خطبہ کلام سے ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی باہمی گفتگو ممنوع ہے اور اسی طرح خاموشی سے مراد لوگوں کی باہمی گفتگو سے خاموشی ہے نہ کہ اللہ کے ذکر سے خاموشی مراد ہے۔ جیسا کہ امام ابن خزیمہؒ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ لٰہذا اگر انسان دوران خطبہ لوگوں سے کلام کرنے سے خاموش رہے لیکن خفیہ اپنے دل میں سلام کا جواب دے یا جسے چھینک آئے اسے خفیہ جواب دے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا ذکر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خفیہ ہی درود بھیجے تو یہ شخص ہر مذکورہ ممانعت (سے اجتناب ) اور حکم پر عمل کرنے والا ہے۔
[تحفة الأحوذى: 59/3]
(ابن بازؒ) جیسے دوران نماز چھینکنے والے کا جواب (یعنی يرحمك الله ) نہیں دیا جاتا اسی طرح دوران خطبہ بھی نہیں دیا جائے گا۔
[الفتاوى الإسلامية: 390/1]
(راجع) عبد الرحمن مبارکپوریؒ اور ان کے موافق جن کا موقف ہے وہ راجح ہے۔ کیونکہ ان تمام اشیاء کو کلام نہیں جاسکتا نیز یہ انصات کے بھی خلاف نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1